وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں امن کا دارو مدار مسئلہ کشمیر کے حل میں ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ دنیا کو اس وقت تین طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کو کورونا کے ساتھ ساتھ معاشی بحران اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا بھی خطرہ ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ وائرس اقوام اور لوگوں کے درمیان تفریق نہیں کرتا ہے۔
انہوں ںے کہا کہ ہمیں درپیش خطرات کا مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ انہوں ںے کہا کہ پاکستان کورونا پر قابو رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہماری مشترکہ منصوبہ بندی اور اسمارٹ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کورونا پر قابو پایا گیا جب کہ انسانی زندگی رواں دواں رہی اور معیشت کا پہیہ بھی چلتا رہا۔ ان کا کا کہنا تھا کہ احساس پروگرام کے تحت ڈیڑھ کروڑ خاندانوں کی مدد کر رہے ہیں۔
وزریراعظم عمران خان نے کہا کہ کورونا کے لیے ویکسین کی دستیابی یقینی بنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہر شخص کو کورونا ویکسین لگنی چاہیے اور جلد سے جلد لگانی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ترقی پذیر ممالک کو مناسب سہولتیں ملنی چاہئیں۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کے بدعنوان حکمرانوں کی وجہ سے امیر اور غریب ممالک میں فرق بڑھ رہا ہے۔ انہوں ںے کاہ کہ 7 ہزارارب ڈالرز کے خطیر چوری شدہ اثاثے محفوظ اداروں میں چھپائے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چوری اور اثاثوں کی غیر قانونی منتقلی کے ترقی پذیر ممالک پر دور رس منفی اثرات پڑے ہیں۔
انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کرپشن اور لوٹ مار سے غربت کی سطح میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔ انہوں ںے کاہ کہ منی لانڈرنگ کے ذریعے رقوم ملک سے باہر بھیجی جاتی ہیں جس کے نتیجے میں کرنسی پر دباؤ آتا ہے اور اس کی قدر میں کمی واقع ہوتی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق ہرسال ایک ہزار ارب ڈالرز ترقی پذیر ممالک سے بھیجے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک سے چوری شدہ اثاثوں کی واپسی نا ممکن ہے تاہم انہوں نے زور دے کر کہا کہ امیر ممالک کو غیرقانونی طور پر بھیجی گئی رقوم واپس کرنا ہوں گی۔
عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ غیر قانونی طور پر حاصل شدہ یہ دولت ترقی پذیر ممالک کے عام عوام کی ملکیت ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس حوالے سے جنرل اسمبلی کو ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔
وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم سب کو مل کر اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے بعد اسلام کو دہشت گردی سے جوڑا جا رہا ہے اور مسلمانوں کو انتہا پسند و دہشت گرد گروہ نشانہ بنا رہے ہیں۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ دنیا کو دہشت گردی اور ابھرتے ہوئے خطرات کو تسلیم کرنا ہوگا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اسلامو فوبیا کا تدارک کرنے کے لیے بین الاقوامی مکالمہ شروع کروائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے مشترکہ کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی ہماری بقا کو درپیش خطرات میں سے ایک ہے۔ انہوں ںے کہا کہ پاکستان اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان نے ایک انقلابی ماحولیاتی پروگرام کا آغاز کیا ہے جس کے تحت 10 ارب درخت لگائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم قدرتی ماحول کو محفوظ بنا رہے ہیں اور اپنے شہروں سے آلودگی کا خاتمہ کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو تیار کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بھارت نے کمشیر میں غیرقانونی اقدامات کررکھے ہیں اوروہاں 9 لاکھ فوج کے ذریعے خوف پھیلایا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ اور میڈیا پر مکمل طورپر پابندی ہے۔
انہوں ںے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی کارروائیاں بین الاقوانی قوانین کے خلاف ہیں لیکن بدقسمتی ہے کہ دنیا کا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے رویہ مساوی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بڑی طاقتوں کو علاقائی سیاسی معاملات اورکاروباری مفادات مجبور کردیتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ مفادات کی خاطر طاقتور ممالک بھارت جیسے ممالک کی خلاف ورزیوں کو نظرانداز کرتے ہیں۔ انہوں ںے کہا کہ بی جے پی کی حکومت اور آر ایس ایس کو انسانی حقوق کی پامالی کی کھلی اجازت دی گئی ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سیدعلی گیلانی کی میت کو خاندان سے چھیننا بھارتی بربریت کی تازہ مثال ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیدعلی گیلانی کی تدفین اسلامی طریقہ کار کے حق سے محروم رکھا گیا۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ سید علی گیلانی کی نمازجنازہ اور تدفین اسلامی روایات کے مطابق نہیں ہونے دی گئی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سید علی گیلانی کی تدفین اسلامی روایات کے مطابق کرائی جائے اور ان کی تدفین شہدا قبرستان میں کرائی جائے۔
انہوں نے واضح کیا کہ جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن کا دارو مدار جموں و کشمیر کے مسئلے کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردوں اور جموں و کشمیر کے عوام کی خواہشات کے مطابق حل ہونے میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ فروری میں ہم نے کنٹرول لائن پرجنگ بندی کے 2003 کے معاہدے کا اعادہ کیا اور امید یہ تھی کہ اس سے دہلی میں حکمت عملی پر دوبارہ غوروخوض ہوگا لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بی جے پی کی حکومت نے کشمیر میں مظالم کی انتہا کر دی ہے اور وہ اس بربریت سے ماحول کو بگاڑنے کی کوشش میں ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ اب یہ بھارت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے سازگار ماحول بنائے اور اس کے لیے بھارت کو لازماً یہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
اس ضمن میں انہوں نے کہا کہ نمبر ایک، 5 اگست 2019 سے کیے گئے یک طرفہ اور غیرقانونی اقدامات کو منسوخ کرے، نمبر دو، کشمیر کے عوام کے خلاف ظلم و جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکے، نمبر تین، مقبوضہ علاقے میں آبادی کے تناسب میں کی جانے والی تبدیلیوں کو روکے اور منسوخ کرے۔
وزیراعظم کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک اور جنگ کو روکا جائے۔
عمران خان نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی فوجی تیاری، جدید جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور عدم استحکام پیدا کرنے والی روایتی صلاحیتوں کا حصول دونوں ممالک کے درمیان موجود ڈیٹیرنسس کو بے معنی کر سکتا ہے۔
افغانستان کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ کسی وجہ سے افغانستان کی موجودہ صورتحال یعنی وہاں ہونے والی تبدیلی کے حوالے سے امریکہ اور یورپ میں بعض سیاستدان پاکستان پر الزام تراشی کرتے رہے ہیں۔انہوں ںے کہا کہ اس پلیٹ فارم سے میں چاہتا ہوں کہ سب جان لیں کہ جس ملک نے افغانستان کے علاوہ سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے تو وہ پاکستان ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم 9/11 کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ میں شامل ہوئے تھے تو 80 ہزار پاکستانی مارے گئے، ہماری معیشت کو 150 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا اور پاکستان میں 35 لاکھ افراد بے گھر ہوئے تو یہ سب کیوں ہوا؟
عمران خان نے کہا کہ 80 کی دہائی میں افغانستان پر غیر ملکی قبضے کے خلاف جنگ میں پاکستان صف اول میں تھا۔ انہوں نے کاہ کہ پاکستان اور امریکہ نے افغانستان کی آزادی کے لیے مجاہدین کو تربیت دی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت دنیا بھر سے مجاہدین گروپوں، اٖفغان مجاہدین اور القائدہ کو ہیرو سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے عالمی رہنماؤں کو یاد دلایا کہ صدر رونلڈ ریگن نے 1983 میں ان کو وائٹ ہاؤس میں دعوت دی تھی اور ایک نیوز رپورٹ کے مطابق انہوں نے ان کا موازنہ امریکہ کے بانیوں کے ساتھ کیا۔
انہوں نے کہا کہ 1989 میں سوویت یونین افغانستان سے چلا گیا اور اسی طرح امریکی بھی افغانستان کو چھوڑ کر گئے لیکن پاکستان کو 50 لاکھ افغان پناہ گزینوں کے ساتھ تنہا چھوڑ دیا گیا۔ انہو نے کہا کہ ہمارے یہاں مذہبی فرقہ پرستی پھیلانے والے عسکری گروپس آگئے جن کا پہلے کوئی وجود نہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بدترین صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب ایک سال بعد امریکہ نے پاکستان پر پابندیاں عائد کر دیں۔
وزیراعظم عمران خان نے تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ لیکن ایک بار پھر امریکہ کو پاکستان کی ضرورت پڑ گئی کیونکہ اب امریکہ کی زیر قیادت اتحاد اٖفغانستان پر حملہ کرنے جا رہا تھا اور پاکستان کی لوجسٹیکل سپورٹ کے بغیر ایسا ممکن نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد کیا ہوا؟ وہی مجاہدین جن کو ہم نے غیر ملکی قبضے کے خلاف جنگ کے لیے تیار کیا تھا وہ ہمارے مخالف ہو گئے اور ہمیں شریک گردانا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہی خلاف جہاد کا اعلان کردیا گیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ پھر افغانستان کے ساتھ ملحقہ سرحد کے قبائلی علاقے میں جو پاکستان کا جزوی طور پر خود مختار علاقہ ہےاور جہاں ہماری آزادی کے وقت سے کوئی فوج تعینات نہیں کی گئی تھی اوران کی افغان طالبان کے ساتھ بہت زیادہ ہمدردی تھی اس لیے نہیں کہ ان کا مذہبی نظریہ ایک ہے بلکہ پشتون قومیت کی وجہ سے جو کہ بہت مضبوط تعلق ہے۔
انہوں نے کہا کہ پھر 30 لاکھ افغان پناہ گزین اب بھی پاکستان میں تھے، وہ سب پشتون ہیں جو کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 5 لاکھ پناہ گزینوں کا سب سے بڑا کیمپ اورایک لاکھ افراد پر مشتمل کیمپس،ان سب کی افغان طالبان کے ساتھ ہمدردی تھی تو کیا ہوا؟وہ بھی پاکستان کے خلاف ہو گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلی بار پاکستان میں عسکریت پسند طالبان سامنے آئے جنہوں نے پاکستانی حکومت پرحملے کیے اورہماری تاریخ میں فوج قبائلی علاقوں میں پہلی مرتبہ گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب بھی فوج شہری علاقوں میں جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں بلا تخصیص نقصان ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلا تخصیص نقصان ہوا جس کے نتیجے میں بدلہ لینے کیلئے عسکریت پسندوں کی تعداد دوگنی اور تگنی ہوگئی۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ امریکہ نے پاکستان پر480 حملے کیے اور سب جانتے ہیں کہ ڈرون حملے اپنے ہدف کو درست نشانہ نہیں لگا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ان عسکریت پسندوں کے مقابلے میں جن کو وہ نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں زیادہ نقصان کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جن لوگوں کے پیارے مارے گئے انہوں نے پاکستان سے بدلہ لیا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 2004 اور 2014 کے درمیان 50 مختلف عسکری گروپس پاکستان کی ریاست پر حملہ آور تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا جب میرے جیسے لوگ پریشان تھے کہ کیا ہم اس صورتحال کا کامیابی سے مقابلہ کر لیں گے؟ انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں ہر طرف بم دھماکے ہو رہے تھے اور ہمارا دارالحکومت ایک قلعے کی مانند دکھائی دیتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہماری فوج نہ ہوتی جو کہ دنیا کہ انتہائی منظم افواج میں سے ایک ہے اور ہماری انٹیلی جنس ایجنسی بھی دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسیوں میں سے ایک ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ پاکستان نیچے چلا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ جب امریکہ میں انٹرپریٹرز وغیرہ اور ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے اس کی مدد کی پریشانی ظاہر کی جاتی ہے تو ہمارے بارے میں کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے جو اس قدر مشکلات کا سامنا کیا ہے اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہم افغانستان کے خلاف جنگ میں امریکی اتحاد کے ساتھ تھے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ افغان سرزمین سے پاکستان پر حملے کیے جا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے کم از کم تعریف کا ایک لفظ ہی کہا جاتا لیکن جب سراہنے کی بجائے تصور کریں کہ ہم پر افغانستان کے حوالے سے الزام تراشی کی جاتی ہے تو ہمیں کیسا محسوس ہوتا ہے؟
وزیراعظم نے کہا کہ 2006 کے بعد یہ بات ہر اس کے لیے واضح تھی جو افغانستان کو سمجھتا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں امریکہ گیا اور میں نے تھنک ٹینکس کے ساتھ بات کی اور اس وقت سینیٹر بائیڈن، سینیٹر جان کیری اور سینیٹر جان ریڈ سے ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور سیاسی حل ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے لیکن اس وقت کسی نے یہ بات نہ سمجھی اور بدقسمتی سے فوجی حل تلاش کرنے میں امریکہ نے غلطی کی۔
عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج دنیا جاننا چاہتی ہے کہ کیوں طالبان واپس اقتدار میں آ گئے ہیں؟ تو اسے ایک تفصیلی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہوگی کہ کیوں تین لاکھ نفوس پر مشتمل سازو سامان سے لیس افغان فوج بھاگ کھڑی ہوئی؟ انہوں نے کہا کہ یاد رکھیں کہ افغان قوم دنیا کی بہادر ترین اقوام میں سے ایک ہے لیکن اس نے مقابلہ نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ جب اس کا تفصیلی تجزیہ کیا جائے گا تو دنیا کو معلوم ہوجائے گا کہ طالبان اقتدار میں واپس کیوں آئے ہیں؟ انہوں نے واضح کیا کہ یہ سب کچھ پاکستان کی وجہ سے نہیں ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس وقت ساری عالمی برادری کو سوچنا چاہیے کہ آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس دو راستے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اس وقت ہم اٖفغانستان کو پس پشت ڈال دیں گے تو افغانستان کے آدھے عوام جن کو پہلے ہی مشکلات کا سامنا ہے اور اقوام متحدہ کے مطابق اگلے سال تک افغانستان کے 90 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں آگے ایک بہت بڑے انسانی بحران کا سامنا ہے جس کے سنگین اثرات افغانستان کے ہمسایوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر جگہ ہوں گے اور غیر مستحکم و بحران سے دوچارافغانستان ایک بار پھر بین الاقوامی دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن جائے گا۔
انہوں نے اپنی تقریر میں استفسار کیا کہ امریکہ افغانستان میں کیوں آیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ اس لیے آگے جانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہم افغان عوام کی خاطر لازمی طور پر موجودہ حکومت کو مستحکم کریں۔ انہوں نے کہا کہ طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ انسانی حقوق کا احترام کریں گے، ایک مخلوط حکومت بنائیں گے، وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کو استعمال کرنے نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان نے معافی کا اعلان کیا ہے اوراگر اب عالمی برادری ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور ان کے ساتھ بات چیت کرتی ہے تو یہ سب کے لیے کامیابی ہو گی کیونکہ یہ وہ چار چیزیں تھیں کہ جب دوحہ میں امریکہ کے طالبان کے ساتھ مذاکرات ہو رہے تھے تو بات چیت کا محور یہی باتیں تھیں۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اگر دنیا اس سمت میں آگے بڑھنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے تو امریکہ اتحاد کی افغانستان میں 20 سال کے دوران کی جانے والی کوششیں ضائع نہیں ہوں گی کیونکہ افغانستان کی سرزمین بین الاقوامی دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں سب پر زور دوں گا کہ یہ افغانستان کے لیے نازک وقت ہے اوروقت کو ضائع نہیں کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہاں امداد کی ضرورت ہے تو عالمی برادری کو اس مقصد کے لیے متحرک کریں۔