اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کے نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت کیس پر اثرانداز ہونے کے دعوے کا نوٹس لیتے ہوئے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کو منگل (کل) کے روز عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
اس کے علاوہ اٹارنی جنرل آف پاکستان، اسلام آباد کے ایڈوکیٹ جنرل، صحافی انصار عباسی اور جنگ، جیو نیوز کی انتظامیہ کو بھی پیشی کے نوٹسز جاری کیے ہیں۔
اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج کے بیان حلفی کا نوٹس لیا تھا۔ اس نوٹس پر آج (پیر) ہی کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مختصر سماعت کی۔
اس سے قبل پاکستان کے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم کی طرف سے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز کو سنہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل ضمانت نہ دینے پر اصرار کرنے کے دعوے کی تردید کی ہے۔
تاہم گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم نے کہا کہ وہ اپنے بیان حلفی میں لکھی تحریر پر قائم ہیں اور یہ کہ وہ بڑے عرصے سے اس بات کا بوجھ اپنے ضمیر پر لے کر چل رہے تھے لیکن اب مذید اس بوجھ کو اٹھانے کی ہمت نہیں تھی اس لیے انھوں نے اس واقعہ سے متعلق بیان حلفی پر سب کچھ کہہ دیا ہے۔
رانا شمیم کا کہنا تھا کہ اگر اس سلسلے میں حقائق جاننے کے لیے کوئی کمیشن بنایا جاتا ہے تو وہ اس کے سامنے پیش ہونے کو بھی تیار ہیں۔
معاملہ ہے کیا؟
گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا ایم شمیم نے اپنے مصدقہ حلف نامے میں کہا ہے کہ وہ اس واقعے کے گواہ تھے جب اُس وقت کے چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ایک جج کو حکم دیا تھا کہ 2018ء کے عام انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت پر رہا نہ کیا جائے۔
سابق چیف جسٹس رانا شمیم کے مطابق سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار 14جولائی 2018 کو ایک 27 رکنی وفد کے ہمراہ گلگت بلتستان آئے تھے، وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ لان میں بیٹھے تھے اور وہ ٹیلی فون پر ہدایات دے رہے تھے۔
رانا شمیم کے مطابق سابق چیف جسٹس کے وفد میں دو بزنس مین بھی شامل تھے جو کہ گلگت بلتستان میں ایک جھیل کے قریب ایک ہوٹل بنانا چاہتے تھے۔رانا شمیم کے مطابق اس وفد میں شامل تمام افراد کا خرچہ انھوں نے اپنی جیب سے ادا کیا تھا۔
گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک روز وہ لان میں اپنی مرحومہ اہلیہ کے ہمراہ میاں ثاقب نثار اور ان کی اہلیہ بھی موجود تھے کہ انھوں نے دیکھا کہ اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان پریشان بیٹھے تھے اور اپنے رجسٹرار سے مسلسل فون پر بات کر رہے تھے اور انھیں ہدایات دے رہے تھے کہ فلاں جج کے پاس جاؤ۔
رانا شمیم کے بقول پاکستان کے سابق چیف جسٹس کہہ رہے تھے کہ اس جج سے میری بات کرواؤ اور اگر بات نہ ہو سکے تو ہائی کورٹ کے اس جج کو میرا پیغام دے دیں کہ سنہ 2018 میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز شریف کو کسی بھی قیمت پر ضمانت پر رہائی نہیں ملنی چاہیے۔
گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انھوں نے میاں ثاقب نثار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ یہاں چھٹیاں گزارنے آئے ہیں تو تمام معاملات کو ایک طرف رکھیں اور اپنی چھٹیاں گزاریں۔
رانا شمیم کا دعویٰ ہے کہ پہلے تو پاکستان کے سابق چیف جسٹس ناراض ہوگئے لیکن کچھ دیر کے بعد لہجہ بدلتے ہوئے کہا انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ (راناشمیم ) پنجاب کی کیمسٹری کو نہیں سمھجتے اور پنجاب کی کیمسٹری گلگت بلتستان سے بہت مختلف ہے۔
گلگت بلتسان کے سابق چیف جسٹس نے دعویٰ کیا کہ جب ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران دوسری جانب سے یقین دہانی ملی تو میاں ثاقب نثار پُرسکون ہو گئے اور اس کے ساتھ ہی انھوں نے ایک اور چائے کا کپ طلب کیا۔
’اتنی حساس باتیں اُن کے سامنے کیسے کر سکتا ہوں‘
سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ اتنی حساس باتیں وہ گلگت بلتستان کے چیف جسٹس کے سامنے کیسے کر سکتے ہیں اور یہ کہ کیا انھیں ریلیکس ہونے کے لیے چائے کا کپ اس وقت کے گلگت بلتستان کے چیف جسٹس رانا شمیم سے ہی پینا تھا۔
پاکستان کے سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نہ تو انھوں نے اس وقت کے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک سے ملاقات کی اور نہ ہی انھیں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت نہ دینے کے سلسلے میں کسی کو ہدایات دی تھیں۔
جب سابق چیف جسٹس سے پوچھا گیا کہ کیا وہ گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس کے اس بیان پر ان کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی کریں گے جس پر پاکستان کے سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اس لیے وہ اس بیان پر چارہ جوئی کر کے رانا شمیم کے اس بیان کو اہمیت نہیں دینا چاہتے۔
انھوں نے کہا کہ چند روز قبل ایک غیر سرکاری تنظیم نے ایک تقریب کا اہتمام کیا ہوا تھا جس میں انھوں نے تقریر کی تھی۔ جسٹس ریٹائرڈ میاں ثاقب نثار کے بقول انھیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید انھیں (رانا شمیم کو) ان کی تقریر ناگوار گزری ہے جس پر انھوں نے ایسا بیان دیا ہے۔
پاکستان کے سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ جب وہ پاکستان کے چیف جسٹس تھے تو انھوں نے رانا شمیم کی بطور چیف جسٹس گلگلت بلتستان کی مدت ملازمت میں توسیع دینے سے انکار کر دیا تھا جس کی وجہ سے شاید انھوں نے ایسا بیان دیا ہے۔
جسٹس ریٹائرڈ میاں ثاقب نثار کا مزید کہنا تھا کہ جب وہ خود پاکستان کے چیف جسٹس تھے تو انھیں سابق وزیر اعظم کو جیل میں رکھنے سے متعلق کسی جج سے ملاقات کرنے یا ہدایات دینے کی کیا ضرورت تھی۔
انھوں نے کہا کہ انھوں نے ماتحت عدلیہ کے کسی جج کو سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کی عام انتخابات سے قبل ضمانت نہ لینے کا حکم نہیں دیا تھا۔
’ضمیر پر بوجھ مزید برداشت نہیں کر سکتا تھا‘
گلگت بلتسان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ابھی بھی اپنے بیان پر من و عن قائم ہیں۔
جب بی بی سی نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس سے استفسار کیا کہ اتنے عرصے کے بعد انھوں نے بیان حلفی پر یہ معاملہ کیوں اٹھایا، جس پر رانا شمیم کا کہنا تھا کہ وہ بڑے عرصے سے اس بات کا بوجھ اپنے ضمیر پر لے کر چل رہے تھے لیکن اب مذید اس بوجھ کو اٹھانے کی ہمت نہیں تھی اس لیے انھوں نے اس واقعہ سے متعلق بیان حلفی پر سارا کچھ کہہ دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان کے سابق چیف جسٹس کی گفتگو سن کر انھیں یہ احساس ہوا کہ سابق وزیر اعظم اور ان کی بیٹی کو جان بوجھ کر پھنسایا جا رہا ہے۔
گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار ان کی مدت ملازمت میں توسیع کرنے کا اختیار ہی نہیں رکھتے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان کے علاوہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں سپریم کورٹس ہیں اور ان تمام کورٹس کی چیف جسٹس کی مراعات ایک جیسی ہیں۔
رانا شمیم کا کہنا تھا کہ مدت ملازمت میں توسیع کی سمری تو وزیر اعظم کے پاس جاتی ہے لیکن انھوں نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے کسی کو کوئی درخواست ہی نہیں دی تھی۔
واضح رہے کہ رانا شمیم 30اگست سنہ2018 میں اپنی مدت ملازمت مکمل کر کے ریٹائر ہو گئے تھے۔
یاد رہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز شریف کی طرف سے احتساب عدالت سے ملنے والی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت 17 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہو گی۔