کرشنگ پلانٹس، کوئٹہ کو آلودگی سے پاک کرنے میں بڑی رکاوٹ

عالمی ادارہ صحت نے 1999 میں جب کوئٹہ کو میکسیکو کے بعد دنیا کا دوسرا آلودہ ترین شہر قرار دیا تو سوئی ہوئی بلوچستان حکومت جاگی، شہر سے آلودگی ختم کرنے کے لیے 10 ہزار ٹواسٹروک رکشوں کو تلف اور  80 سے زائد اینٹ بھٹوں کو شہر سے باہر دشت میں منتقل کیا گیا، مگر 22 برس گزرنے کے باجودکوئٹہ کو آلودگی سے پاک شہر بنانے کی حکومتی کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں۔

ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ اب بھی کوئٹہ کے علاقوں بروری، خروٹ آباد اور کچلاک میں لگے 25کرشنگ پلانٹس سے نکلنے والی گرد شہر کو آلودہ کر رہی ہے، وادی کوئٹہ میں چلنے والی ہواوں کے ساتھ کرشنگ پلانٹس سے نکلنے والی گرد بھی شامل ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے شہر کی فضا میں دن اور رات کے اوقات میں گرد کی دبیز تہہ چھائی رہتی ہے، کئی مرتبہ یہ گرد اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ کوئٹہ آنے والے طیاروں کی آمد و روانگی بھی متاثر ہوجاتی ہے۔

محکمہ معدنیات کے ریکارڈ کے مطابق کوئٹہ میں لگے ہوئے 25 کرشنگ پلانٹس سے سالانہ 50 ہزار ٹن کرش پیدا ہوتی ہے جس سے صوبائی حکومت کو ڈھائی کروڑ روپے کی رائلٹی ملتی ہے، ان کرشنگ پلانٹس سے نکلنے والی کرش نہ صرف کوئٹہ کی ضروریات کو پورا کرتی ہے بلکہ یہ کرش ملک میں جاری ترقیاتی منصوبوں میں بھی استعمال ہوتی ہے۔

بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ اختر آباد میں لگے کرشنگ پلانٹس تو چلتن کے پہاڑ کو کاٹ کاٹ کر شہر کی قدرتی خوبصورتی کو بھی گہنا رہے ہیں۔

بلوچستان ہائی کورٹ نے بھی ان کرشنگ پلانٹس کے آلودگی کا سبب بننے اور شہر کی قدرتی خوبصورتی کو خراب کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوتے کرشنگ پلانٹس کو شہر سے باہر منتقل کرنے کے احکامات دیئے ہیں.

پہاڑوں کو کاٹ کر اور توڑ کر پتھر اور بجری بنانے کا عمل ترقیاتی حوالے سے ضروری اور اہم تو ہو سکتا ہے مگر یہی کام شہری حدود اور آبادی کے قرب و جوار میں ہو تو اس سے نہ صرف ماحول کے مسائل پیدا ہوتے ہیں بلکہ اس کے انسانی صحت پر بھی مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

دمے سمیت سینے اور پھیپھڑے کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ
کوئٹہ کے کرشنگ پلانٹس کے قریب واقع بروری، ہزارہ ٹاؤن اور خروٹ آباد کے مکین دمے سمیت سینے اور پھیپھڑوں کے امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔

فاطمہ جناح چیسٹ اینڈ جنرل اسپتال کے طبی ماہر ڈاکٹر محمود شاہوانی کا کہنا ہے کہ اس اسپتال کے قریب ہی کرشنگ پلانٹس لگے ہوئے ہیں جس سے صحت مند لوگ متاثر ہو رہے ہیں، دمہ، سی او پی ڈی اور سیلی کوسز کے مریض آرہے ہیں، اگر ایسے مریضوں کا بروقت علاج نہ ہو تو یہ کینسر کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔

ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کوئٹہ کو ماضی کی طرح آلودگی سے پاک شہر بنانا چاہتی ہے تو اس کے گرد و نوا ح میں لگے کرشنگ پلانٹس کو آبادی سے دور منتقل کرنا ہو گا، اس حوالے سے حکومتی اداروں کو بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کروانا ناگزیر ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں