چِتوڑ کا جوہر

26 اگست 1303
جنوری 1303 میں ریاست دہلی کے تُرک سُلطان علاؤدین خلجی نے اپنی سلطنت کو وُسعت دینے کے ارادے سے ریاست میواڑ کے دار الحکومت چِتوڑ کے شاہی قلعے کی گھیرہ بندی کر دی۔

اُس وقت ریاست میواڑ کے راجا راول رتن سنگھ تھے۔

علاؤدین اپنی بہت بڑی تُرک فوج کے ساتھ حملہ آور ہوا تھا جبکہ راول رتن سنگھ کے پاس چند ہزار سپاہی تھے۔
جیت ناممکن نظر آنے لگی۔ چِتوڑ قلعے کے تمام دروازے بند کر دیئے گئے۔

قلعے کی گھیرہ بندی 8 مہینوں تک چلی اور بالآخر 26 اگست 1303 کو جب قِلعے میں اناج پوری طرح سے ختم ہو گیا تو راجپوتوں نے قلعے سے باہر نکل کر آخری دم تک لڑنے کی ٹھان لی۔

ریاست میواڑ کی رانی پدمِنی (پدماوتی) نے 16,000 راجپوت عورتوں سمیت آگ میں کُود کر جان دے دی تا کہ کوئی تُرک درندہ اُن کے مردہ جِسم کو بھی نہ چُھو پائے۔

اپنی عزت بچانے کے لیئے آگ میں کُود کر مرنے والی اِس رسم کو ” جوہر ” کہا جاتا ہے۔
اُسی دن قِلعے میں موجود راجپوت مردوں نے آگ میں جلنے والی راجپوتانیوں کی راکھ اپنے ماتھے پر لگائی، زغفرانی رنگ کا لباس پہنا اور مرنے اور مارنے کے لیئے تیار ہو گئے۔

راول رتن سنگھ سمیت تمام 6,000 راجپوت سپاہی بُھوکے شیروں کی طرح تُرک فوج پر ٹُوٹ پڑے اور آخر کار لڑتے لڑتے سبھی راجپوت سُورمے عزت کے نام پر قُربان ہو گئے۔
آخری وقت تک دُشمن سے لڑتے ہوئے مرنے کی اِس رسم کو ” کیسّریا ” کہا جاتا ہے۔جوہر اور کیسریا کا مجموعہ ” ساکا ” کہلاتا ہے۔یعنی جوہر + کیسریا = ساکا

علاؤدین کی فوج کا ایک بڑا حصہ اِس جنگ میں ختم ہو گیا لیکن وہ اب چِتوڑ جیسا مظبوط قلعہ جیت چُکا تھا۔
جب علاؤدین چِتوڑ قلعے میں داخل ہوا تو اُسے سوائے راکھ کے ڈھیروں کے کچھ نہ ملا۔
سن 1311 میں ایک راجپوت سردار مالدیو سونگّرہ (چوہان) نے قلعے پر تعینات ترک سپاہیوں پر حملے شُروع کر دیئے جِس سے تنگ آ کر علاؤدین نے چِتوڑ کا قلعہ مالدیو سونگّرہ کے حوالے کر دیا۔

اِس طرح 8 سال بعد چِتوڑ کا قلعہ پِھر سے راجپوتوں نے واپس لے لیا۔
سن 1321 میں راول رتن سنگھ کے چچا زاد بھائی اری سنگھ کے بیٹے ہمیر سنگھ کی شادی مالدیو سونگّرہ کی بیٹی سے ہوئی اور مالدیو نے چِتوڑ کا قلعہ ہمیر سنگھ کو سونپ دیا۔

ہمیر سنگھ نے ریاست میواڑ کا حکمران بننے کے بعد لفظ “راول” کی بجائے لفظ “رانا” بطور لقب استعمال کیا۔
رانا ہمیر سنگھ ہی کی اولاد سے رانا کُمبھا، رانا سانگا، رانا پرّتاپ اور رانا راج سنگھ جیسے راجپوت سُورمے ہوئے.

اپنا تبصرہ بھیجیں