اسلامی اصولوں کے مطابق پاکستان میں دی گئی طلاق برطانیہ میں قابل قبول نہیں ہونی چاہیے، پاکستان جوڑے کے کیس میں لندن ہائی کورٹ کی جج مسز جسٹس اربتھناٹ نے فیصلہ سنادیا۔
برطانوی ہائی کورٹ کی ایک جج نے فیصلہ دیا ہے کہ پاکستان میں دی گئی طلاق کو برطانیہ میں تسلیم نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ یہاں انگلینڈ اور ویلز کے مختلف قوانین لاگو ہوتے ہیں۔
جسٹس اربتھناٹ نے فیملی کورٹ میں ایک ایسے جوڑے کے کیس کی سماعت کی جن کی شادی ٹوٹ گئی تھی اور دونوں اپنے مقدمات عدالت میں لے گئے تھے تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ پاکستان میں دی گئی پہلی طلاق برطانیہ میں قانونی حیثیت رکھتی ہے یا نہیں۔
اس حوالے سے عاصم حسین (جو نازیہ نامی خاتون کے دوسرے شوہر ہیں) نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ نازیہ سے ان کی 14 برس قبل ہونے والی شادی کو منسوخ کیا جائے کیوں کہ جب ان کی شادی ہوئی تو وہ اپنے پہلے شوہر کے نکاح میں بھی تھیں۔
عاصم حسین نے مؤقف اپنایا کہ نازیہ پروین کی اپنے پہلے شوہر سے ہونے والی اسلامی طلاق کو برطانوی قانون کے تحت تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
دوسری جانب نازیہ پروین نے اس بات سے اختلاف کیا اور عدالت کو بتایا کہ ان کے پہلے شوہر سے ان کی طلاق کو انگلینڈ میں تسلیم کیا جانا چاہیے اور اسے حتمی اور جائز قرار دیا جانا چاہیے۔
اس معاملے پر جسٹس اربتھناٹ نے عاصم حسین کے حق میں فیصلہ سنایا اور کہا کہ پاکستان میں دی گئی طلاق برطانیہ میں قابل قبول نہیں ہے اور ان کا یہ فیصلہ انگلینڈ اینڈ ویلز کے قانونی دائرہ اختیار کی حد تک ہے۔
جج کا کہنا تھا کہ ان کے فیصلے کا اثر پاکستان میں ہونے والی طلاقوں اور دوسری شادیوں کے معاملات پر نہیں پڑے گا۔