عظیم قوال استاد نصرت فتح علی خان کی 24ویں برسی

فن قوالی کو پوری دنیا میں متعارف کرانے والے عظیم قوال استاد نصرت فتح علی خان کی 24 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے۔

سوشل میڈیا رپورٹس کے مطابق استاد نصرت فتح علی خان 13 اکتوبر 1948 کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے ، ان کے والد کا نام فتح خان تھا اوروہ خود بھی نامور گلوکار، سازندے اور قوال تھے۔
استاد نصرت فتح علی خان قوالی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، اپنی منفرد گائیکی کی بدولت پوری دنیا میں نام پیدا کیا۔

استاد نصرت فتح علی خان نے بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

ٹائم میگزین نے 2006ء میں ایشین ہیروز کی فہرست میں ان کا نام بھی شامل کیا، بطور قوال اپنے کیریئر کے آغاز میں اس فنکار کو کئی بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔

نصرت فتح علی خان نے مینوں سوچاں دیاں دے گیا سوغاتاں، سُن چرخے دی مٹھی مٹھی کوک، دم مست قلندر مست مست، آ جا تینوں آکھیاں اُدیک دیاں، آفریں آفریں، میری توبہ توبہ، تم اک گورکھ دھندا ہو، کوئی جانے یا نہ جانے سمیت سینکڑوں نغمات اور قوالیاں گا کر بے حد شہرت حاصل کی۔

نصرت فتح علی خان کی ایک حمد وہ ہی خدا ہے کو بھی بہت پذیرائی ملی جبکہ ایک ملی نغمے میری پہچان پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لئے گایا گیا گیت جانے کب ہوں گے کم اس دنیا کے غم آج بھی لوگوں کے دلوں میں بسے ہیں۔
نصرت فتح علی خان کو ہندوستان میں بھی بے انتہا مقبولیت اور پذیرائی ملی جہاں انہوں نے جاوید اختر، لتا مینگیشکر، آشا بھوسلے اور اے آر رحمان جیسے فنکاروں کے ساتھ کام کیا۔

دنیا آج بھی شہنشاہ قوال کی خوبصورت آواز کے سحر میں جکڑی ہوئی ہے۔
استاد نصرت فتح علی خان نے جس طرح اپنے فن کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچا دیا اس طرح فن موسیقی میں پاکستان کو پوری دنیا میں متعارف کرانے کا کریڈٹ صرف اور صرف استاد نصرت فتح علی خان کو جاتا ہے۔

مشرقی اور مغربی موسیقی کا شاندار امتزاج پیش کرنیوالے نصرت فتح علی خان نے کئی ایوارڈز اپنے نام کئے۔

1995 میں انہیں یونیسکو میوزک ایوارڈ دیا گیا جبکہ 1997ء میں انہیں گرامی ایوارڈز کیلئے نامزد کیا گیا۔

وہ گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے اورصرف 48سال کی عمر میں 16اگست 1997 کودنیا سے کوچ کر گئے.

اپنا تبصرہ بھیجیں