صورتحال خراب ہوئی تو افغانستان میں دوبارہ داخل ہوسکتے ہیں، امریکی قانون ساز

جہاں امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ کابل میں ایک جامع حکومت لانے میں اہم کردار ادا کرے وہیں ایک قانون ساز نے خبردار کیا ہے کہ اگر حالات خراب ہوے تو امریکا افغانستان میں دوبارہ داخل ہو سکتا ہے۔

یہ بیان پاکستان کے امریکی اور اقوام متحدہ کے مندوبین کی اس یقین دہانی کے بعد سامنے آئے کہ اسلام آباد بھی کابل میں ایک جامع حکومت چاہتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان نے ڈان کو بتایا کہ ‘ہم پاکستانی قیادت کے ساتھ باقاعدہ رابطے میں ہیں اور افغانستان کے بارے میں تفصیلی بات چیت کی ہے’۔

عہدیدار نے مزید کہا ‘پاکستان نے افغانستان میں وسیع حمایت کے ساتھ ایک جامع حکومت کی کثرت سے اور عوامی طور پر وکالت کی ہے اور ہم اس نتیجے کو فعال کرنے میں پاکستان کو اہم کردار ادا کرنے کی طرف دیکھتے ہیں’۔

منگل کے روز طالبان نے ایک عبوری حکومت کا اعلان کیا جس میں گروپ کے پرانے رہنماؤں کا غلبہ تھا جس میں کوئی خاتون شامل نہیں تھی۔

گروپ کے مرحوم بانی ملا عمر کے قریبی ساتھی محمد حسن اخوند نئی حکومت کے سربراہ ہیں جو واشنگٹن کی خواہش کی عکاسی نہیں کرتی۔

اس اعلان سے چند گھنٹے قبل ریپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے تجویز دی کہ اگر امریکا ستمبر 2001 میں امریکی سرزمین پر حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والے عسکریت پسندوں کو اس ملک میں اپنی جڑیں دوبارہ پھیلانے کی اجازت دیتا ہے تو امریکا دوبارہ مداخلت کرسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘طالبان بہتر نہیں ہوئے، وہ نئے نہیں ہیں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ القاعدہ کو محفوظ پناہ دینے والے ہیں جن کے عزائم ہیں کہ وہ ہمیں مشرق وسطیٰ سے نکال دیں اور ہمارے طرز زندگی کی وجہ سے ہم پر حملہ کریں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم عراق اور شام کی طرح افغانستان بھی واپس جاسکتے ہیں’۔

انٹرویو لینے والے اسٹیفن شاکر نے ان کی بات کاٹتے ہوئے سوال کیا کہ ‘آپ سنجیدگی سے یہ بات کر رہے ہیں کہ امریکا ایک بار پھر مستقبل قریب میں افغانستان میں فوجیں واپس بھیجے گا’۔

اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ‘ہمیں کرنا پڑے گا’۔

خیال رہے کہ امریکا نے 2003 میں عراق پر حملہ کیا تھا، 2011 میں اپنی افواج کو واپس بلا لیا تھا تاہم تین سال بعد انہیں واپس بھیج دیا تھا۔

تقریبا 2 ہزار 500 امریکی فوجی اب بھی وہاں موجود ہیں تاہم اب تک کسی امریکی عہدیدار نے افغانستان میں امریکی فوجیوں کو دوبارہ بھیجنے کی ضرورت کے بارے میں بات نہیں کی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں