افغانستان کے صوبے بلغ میں ساتویں سے بارہویں کلاسز کی لڑکیوں کے لیے اسکولز دوبارہ کھل گئے جس کے بعد بلغ صوبے میں لڑکیاں اب پہلی سے بارہویں جماعت تک تعلیم بآسانی حاصل کر سکتی ہیں۔
افغان نیوز ایجنسی طلوع نیوز کے مطابق اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے بعد کابل سمیت ملک کے مختلف شہروں میں لڑکیاں فی الحال پہلی سے چھٹی جماعت تک تعلیم حاصل کر سکتی ہیں لیکن صوبہ بلغ میں لڑکیاں بارہویں جماعت تک تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
صوبے میں ساتویں سے بارہویں جماعت تک تعلیم کی بحالی پر لڑکیاں بے حد خوش ہیں اور انکا کہنا ہے کہ ان کی تعلیم کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
تمنا نامی شاگرد کا کہنا ہے کہ اعتماد سازی کسی حد تک کی گئی ہے، طلباء کی تعداد بڑھ رہی ہے اور سیکھنے کا عمل اب بہتر ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سب کچھ معمول پر آگیا ہے لیکن جب ہم ملک کے حالات کو دیکھتے ہیں تو یہ اچھا لگتا ہے اور ہم مطمئن ہیں۔
ایک اور شاگرد فاطمہ کا کہنا تھا کہ سیکھنے کے عمل کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے اور ہمارے اساتذہ ہماری مدد کر رہے ہیں جب ہم سکول آتے ہیں تو سیکیورٹی کی صورت حال اچھی ہوتی ہے۔
بلخ میں محکمہ تعلیم کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ صوبہ بلغ میں 600 سے زائد مرد و خواتین کے اسکول فعال ہیں جہاں 5لاکھ سے زائد طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں جن میں سے نصف تعداد لڑکیوں کی ہیں۔
دوسری جانب خاتون اساتذہ سہیلہ وردک کا کہنا تھا کہ گزشتہ 4ماہ سے اساتذہ اور عملے کو تنخواہ نہیں ملی جبکہ کوئی سہولیات بھی موجود نہیں ہیں۔
اس کے باجود صوبہ بلخ کے محکمہ تعلیم کے حکام نے والدین پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول لازمی بھیجیں.