امریکی صدر جوزف بائیڈن نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کی ذمے داری قبول کر لی اور انخلاء کو غیر معمولی کامیابی قرار دے دیا۔امریکی قوم سے خطاب میں جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں 20 سال تک 30 کروڑ ڈالر روزانہ خرچ کئے۔ امریکیوں کی اگلی نسل کو ایسی جنگ میں نہیں جھونکنا چاہتے جو بہت پہلے ختم ہوجانی چاہیے تھی۔
بائیڈن نے انخلاء ممکن بنانے پر امریکی کمانڈرز، فوجیوں اور سفارتکاروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ داعش کے حملے میں 13 امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا حق ادا نہیں کر پائیں گے، کابل ایئرپورٹ کی سیکورٹی کے لیے میں نے 6 ہزار فوجی بھیجے۔انہوں نے کہا کہ اپنی غلطیوں سے سیکھنا ہوگا، ایسے اہداف بنائیں جنھیں حاصل کیا جاسکے۔
افغانستان میں تیسری دہائی بھی گزارنا امریکی مفاد نہیں تھا۔ اگر ہم افغانستان میں مزید رہتے تو طالبان کو ہمارے فوجیوں پر حملے کا حق ہوتا، اگر ہم ڈیڈ لائن کا احترام کرتے تو طالبان امریکی فوجیوں پر حملے نہ کرنے کے پابند رہتے۔
صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کی طالبان سے ڈیل کے بعد صورت حال یکسر بدل گئی تھی، ہم غیر معینہ مدت کے لیے مزید افغانستان میں نہیں رہ سکتے تھے۔ دنیا بدل رہی ہے، ہمیں چین اور روس کی جانب سے بہت سے نئے چیلنجز کا سامنا ہے، روس اور چین چاہتے ہیں کہ امریکا افغانستان میں الجھا رہے۔
جوبائیڈن کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان سے انخلاء کا منصوبہ پہلے سے تیار شدہ تھا، جب میں اقتدار میں آیا تو طالبان کے ساتھ 2020 کا معاہدہ طے ہو چکا تھا، افغانستان سے انخلاء سول اور فوجی قیادت کا متفقہ فیصلہ تھا۔ 17 دن تک چوبیس گھنٹے انخلاء کا کام جاری رہا، انخلاء میں دیر کرتے تو حالات پھر بھی خطرے سے خالی نہ ہوتے۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ نوے فیصد امریکی شہریوں کو افغانستان سے نکال چکے ہیں، ہمیں یقین ہے 100 سے 200 امریکی باشندے اب بھی افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں، امید ہے کہ طالبان وعدے پر قائم رہیں گے، طالبان کے کہنے پر یقین نہیں ان کے عمل کو دیکھیں گے۔
خطاب میں امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ مجھے یقین ہے انخلاء کا یہ فیصلہ درست تھا، جنگ ختم کرنا ہی درست فیصلہ تھا، اس جنگ کو بہت پہلے ختم ہو جانا چاہیے تھا، میں اس ہمیشہ کی جنگ کو مزید بڑھانے کے لیے تیار نہیں۔ ہم نے بن لادن کو ایک دہائی پہلے ہی سبق سکھا دیا تھا، القاعدہ کو شکست دے دی، اب دنیا بدل رہی ہے، اس نئی دنیا میں الشہاب، القاعدہ کی زیلی تنظیمیں اور داعش جیسے خطرات ہیں۔ داعش خراساں کے خلاف ہماری جنگ ختم نہیں ہوئی۔