کہتے ہیں ایک پیڑ تھا جنگل کے درمیاں
اُس کے جمال و حسن کا چرچہ تھا چار سُو
کہتے ہیں ایک روز وہ بیمار ہو گیا
اپنی جڑوں سے شاخ تک لاچار ہو گیا
کہتے ہیں ایک رات وہ پیڑ مر گیا
اُس کا حسیں بدن سوکھے میں ڈھل گیا
پیڑوں کے درمیان ماتم کی صف بچھی
سبزہ و گھاس نے بھی آنسو بہا دئیے
کہتے ہیں ایک آدمی جنگل میں آگیا
سوکھا ہوا وہ پیڑ اُس کے دل کو بھا گیا
اُس آدمی نے پیڑ سے کرسی تراش دی
وہ پیڑ مر کے ایک اور روپ پا گیا
پھر زندگی کا ایک اور گیت گا گیا
جنگل کے باسیوں کو بھی چین آگیا