اے حسنِ طرحدار ذرا دیر تو ٹھہر
تجھ سے ہے ہر بہار ذرا دیر تو ٹھہر
چلتا ہے جیسے بدلیاں اُڑتی ہیں ہوا میں
نازک سے ستمگار ذرا دیر تو ٹھہر
جلدی ہے گزرنے کی تجھے کس لئے اتنی
چھو کے دلوں کے تار ذرا دیر تو ٹھہر
آنکھوں میں چھپے جام ہیں گردن ہے صراحی
آتے ہوئے خمار ذرا دیر تو ٹھہر
دھیرے سے چل کہ وادیِ دل کہتی ہے تجھ سے
اے برق سی رفتار ذرا دیر تو ٹھہر
بیٹھا تھا ایک راہ میں وہ شوخ دِکھ گیا
جھومے گل و گلزار ذرا دیر تو ٹھہر
دیکھا اُسے آنکھوں نے کئی شعر ہو گئے
کہنے لگا وقار ذرا دیر تو ٹھہر
محمد وقار حیدر