برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن کے خلاف 6 جون بروز پیر کو پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی ہے۔
اسکائی نیوز کے مطابق برطانوی وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی ووٹنگ ہاؤس آف کامنز میں ہوئی۔
ووٹنگ کا آغاز پاکستانی وقت کے مطابق رات تقریباً 10 بجے شروع ہوا جو 12 بجے تک جاری رہا۔ عدم اعتماد پر ووٹنگ کا نتیجہ پاکستانی وقت کے مطابق رات ایک بجے سامنے آیا۔
برطانوی ذرائع کے مطابق 211 کنزرویٹو ارکان نے وزیراعظم کے حق میں اور 148 نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے 180 ووٹ درکار تھے۔
تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے کے بعد مخالفین اب ایک سال تک بورس جانسن کے خلاف دوبارہ تحریک عدم اعتماد پیش نہیں کرسکے گے۔
تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے کے بعد برطانوی وزیراعظم بورس جانسن سے کابینہ کی ٹیم میں شامل کئی وزرا نے یکجہتی کا اظہار بھی کیا۔ بورس جانسن کے علاوہ کابینہ کے ارکان سمیت اراکین پارلیمنٹ تحریک کو ناکام بنانے کیلئے دن بھر سرگرم رہے۔
حکمراں جماعت کنزرویٹو پارٹی کے وزیراعظم نے 48 ووٹوں کی برتری سے اپنی وزارت عظمیٰ کو بچایا۔ بورس جانسن نے کنزرویٹو پارٹی میں مجموعی طور پر 58.8 فیصد حمایت حاصل کی ہے جبکہ 41.2 فیصد ارکان نے ان کی مخالفت کی ہے۔
1922 کمیٹی آف بیک بینچ کنزرویٹوز کے چیئرمین سر گراہم بریڈی نے خفیہ رائے شماری کے بعد اعلان کیا کہ ’پارلیمانی جماعت کو وزیر اعظم پر اعتماد ہے۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب نہ ہونے پر ردعمل دیتے ہوئے لیبر پارٹی کے رہنما سر کیئر اسٹارمر نے کہا کہ کنزرویٹو ارکان میں واضح تقسیم پائی جاتی ہے اور مسائل کے حل کے لیے ان کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس کارروائی میں تمام ٹوری ارکان نے حصہ لیا۔ سنہ 2018 میں ایسی ہی ایک اعتماد کے ووٹ کی کارروائی میں ٹریزا مے نے جماعت کی 63 فیصد حمایت حاصل کی تھی۔
تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن نے اپنے پہلے بیان میں کہا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ نے متاثر کن اور حتمی فیصلہ دے دیا، آج کا نتیجہ سیاست اور ملک کے لیے اچھا ہے، اب حکومت چاہتی ہے کہ سب مل کر آگے بڑھیں۔
بورس جانسن کا کہنا ہے کہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد فوری الیکشن میں دلچسپی نہیں، اپنے ایجنڈے کو جاری رکھیں گے، اعتماد کے حوالے سے ساتھیوں نے 2019 سے بھی بڑا مینڈیٹ دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ معیشت کو مضبوط کرنے اور ملک بھر میں یکساں مواقع فراہم کرنے کا موقع ملا ہے۔
برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن کو گزشتہ سال سے عوام اور مخالف اراکین کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا رہا ہے، ان کے خلاف شدید رد عمل اس وقت دیکھنے میں آیا، جب عالمی وبا کرونا وائرس کے دوران لگائے گئے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انہوں نے لاک ڈاؤن کے دوران ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ میں پارٹیوں کا اہتمام کیا۔
جس کے بعد قوائد و ضوابط کی خلاف ورزیوں سے متعلق سیو گرے رپورٹ سامنے آئی اور بعض ارکان نے اس پر غصے کا اظہار کیا۔ بورس جانسن نے شراب نوشی سے بھرپور ان پارٹیوں پر معافی بھی مانگی تھی۔
ان کی جماعت کے اندر ان کے خلاف بڑھتے ہوئے غصے کا اظہار حال ہی میں اس وقت سامنے آیا جب ملکہ الزبتھ کی تاج پوشی کی پلاٹینم جوبلی کے پروگراموں میں ان کے خلاف نعرے لگائے گئے اور طنز کیا گیا جس پر کئی ارکان خاموشی سے محظوظ ہوتے ہوئے دکھائی دیے۔
بعد ازاں بڑے پیمانے پر تنقید اور عوامی ردعمل کے بعد بورس جانسن کی جانب سے معافی بھی مانگی گئی تھی۔ بورس نے معافی مانگتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے دفتر کو چلانے کے نظام کو بہتر کریں گے۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وبائی بیماری ہر ایک کے لیے مشکل تھی۔ ہم نے اس ملک کے لوگوں سے کہا کہ وہ سب سے زیادہ غیر معمولی قربانیاں دیں۔ اس سلسلے میں ہم لوگوں کے غصے کو سمجھتے ہیں اور ’افسوس (سوری) کہنا کافی نہیں ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اب اس پالیسی میں تبدیلیاں متعارف کر رہے ہیں کہ ڈاؤننگ سٹریٹ اور کیبنٹ آفس کو کیسے چلایا جاتا ہے تاکہ وہ حکومت کو صحیح سمت پر ڈال سکیں۔