نگر کے ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) کا کہنا ہے کہ 7 ہزار 788 میٹر بلند چوٹی ‘راکاپوشی’ کے کیمپ تھری میں پھنسے 3 کوہ پیماؤں کو نکالنے کے لیے ریسکیو آپریشن تیسرے روز بھی جاری ہے جبکہ کوہ پیماؤں کو خوراک دیگر ضروری سامان ہیلی کاپٹر کے ذریعے پہنچا دیا گیا ہے۔
ڈی سی نگر ذوالقرنین حیدر نے کہا کہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے کوہ پیماؤں کو رسی، کھانا، ادویات اور رابطے کے لیے وائرلیس سیٹ بھیجے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ریسکو آپریشن میں ماہر کوہ پیماؤں کی ٹیم بھی شامل ہے اور انتظامیہ کی جانب سے مرحوم علی سدپارہ کے بیٹے ساجد علی سدپارہ کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں۔
ذوالقرنین حیدر کا کہنا تھا کہ 6 ہزار میٹر کی بلندی پر پہنچنے پر کوہ پیماؤں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے ریسکیو کرلیا جائے گا۔
مقامی کوہ پیما واجداللہ نگری نے جمہوریہ چیک کے جیکب وِسیک اور پیٹر ماسیک کے ہمراہ 9 ستمبر کو راکاپوشی کی چوٹی سر کی تھی۔
وہ واپسی پر پھنس گئے تھے اور موسم کی خرابی کے باعث اتوار کو ریسکیو آپریشن روک دیا گیا تھا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ امدادی کارروائی کے پہلے مرحلے میں پائلٹس 6 ہزار میٹر سے زائد بلندی تک ہیلی کاپٹرز لے کر گئے تھے لیکن پہاڑ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا اور تیز ہوا چل رہی تھی، جس کی وجہ سے ہیلی کاپٹرز واپس گلگت آگئے تھے جہاں ان میں ایندھن بھرا گیا۔
چوٹی پر موسم کی خرابی کے باعث دوسرا مرحلہ بھی کامیاب نہیں ہوا تھا، تاہم پھنسے ہوئے کوہ پیما سیٹلائٹ کمیونی کیشن کے ذریعے اپنے اہل خانہ سے رابطے میں ہیں۔
الپائن کلب پاکستان کے سیکریٹری قرار حیدری نے نجی ٹی وی کو بتایا تھا کہ ‘واجداللہ نگری کی صحت ٹھیک ہے اور وہ ہم سے رابطے میں ہیں تاہم جمہوریہ چیک کا ایک کوہ پیما سرمازدگی کا شکار ہے اور دوسرا بیمار ہے’۔
قرار حیدری کا مزید کہنا تھا کہ جمہوریہ چیک کے دو کوہ پیماؤں نے بغیر اجازت چڑھائی کی جو ان کے لیے مشکلات کا باعث بنی، کیونکہ بغیر اجازت چڑھائی کرنے سے ریسکیو آپریشن کے لیے بیوروکریسی کے پروٹوکولز پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔
راکاپوشی دنیا کی 27ویں اور پاکستان کی 12ویں بلند ترین چوٹی ہے۔
واجداللہ نگری، راکاپوشی سر کرنے والے دوسرے پاکستانی کوہ پیما ہیں، 40 سال قبل شیر خان نے پہلی بار اس چوٹی کو سر کیا تھا۔
اے سی پی کے مطابق راکاپوشی دنیا کا واحد پہاڑ ہے جس کی چوٹی، بیس کیمپ سے عمودی طور پر 5 ہزار میٹر بلند ہے۔