ادبی دنیا کا روشن ستارہ معروف ادیبہ، ڈرامہ نگار، ناول نگار فاطمہ ثریا بجیا کی 91 ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے۔
فاطمہ ثریا بجیا یکم ستمبر 1930 کو بھارتی شہر حیدرآباد میں پیدا ہوئیں اور قیام پاکستان کے بعد اپنے اہل خانہ کے ساتھ کراچی میں سکونت اختیار کی۔ان کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا، جہاں سب کو ہی ادب سے بہت لگاؤ تھا، یہی وجہ ہے کہ انہیں بھی بچپن سے لکھنے لکھانے اور مطالعے کا شوق تھا۔
فاطمہ ثریا بجیا ملک کے مشہور مصنف و ادیب انور مقصود، شاعرہ زہرہ نگار، مرحوم شیف زبیدہ طارق اور ڈیزائنر کاظمی کی بہن تھیں۔انہوں نے باقاعدہ اسکول میں تعلیم حاصل نہیں کی لیکن گھر میں ہی ان کی تعلیم و تربیت کا خاص خیال رکھا گیا۔
فاطمہ ثریا بجیا 1960 میں پاکستان ٹیلی ویژن سے منسلک ہوئیں، جس کے بعد پہلی مرتبہ 1966 میں انہوں نے اداکاری کے جوہر دکھائے اور اس کے بعد ڈرامے لکھنے کا سلسلہ شروع کردیا۔
ان کے لکھے گئے مشہور ڈراموں میں شمع، انا، تصویر، افشاں، عروسہ اور دیگر شامل ہیں، انہوں نے پی ٹی وی پر خواتین کے لیے کئی پروگرامز کا بھی انعقاد کیا۔
بجیا نے پاکستان ٹیلی ویژن کے ناظرین کو مشترکہ خاندانی نظام کی افادیت، رشتوں ناتوں کی بہار، پیار و محبت اور آپس میں اتحاد و اتفاق سے رہنے کی اہمیت اور اس کے فوائد سے یوں آشنا کیا کہ آج بھی ان کے تحریر کردہ ڈرامے بلاامتیازِ جنس و طبقہ شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
فاطمہ ثریا بجیا نے اپنی بہترین کارکردگی سے نہ صرف ملک میں نام روشن کیا بلکہ بین الاقوامی شہرت بھی حاصل کی۔
حکومت پاکستان کی جانب سے 1997ء میں ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغۂ حسنِ کارکردگی اور 2012ء میں ’’ہلالِ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔ بجیا نے کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات اپنے نام کیے جن میں جاپان کا شاہی ایوارڈ بھی شامل ہے۔
ان کی سوانحِ عمری ’’برصغیر کی عظیم ڈرامہ نویس فاطمہ ثریا بجیا کی کہانی‘‘ کے عنوان سے 2012ء میں شائع ہوئی۔
بجیا نے سندھ حکومت کی مشیر برائے تعلیم کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دیں۔
فاطمہ ثریا بجیا گلے کے کینسر کے باعث شدید علالت کا شکار رہیں اور 85 برس کی عمر میں10 فروری 2016 کو کراچی میں انتقال کرگئیں لیکن ان کی تحریریں آج بھی سب کے دلوں میں نقش ہیں۔