سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
فرازؔ آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں
اردو کے ہر دلعزیز شاعر احمد فراز کی آج تیرہویں برسی منائی جارہی ہے۔ بدلتے ادبی رجحانات کے ساتھ اردو ادب کے اس رومانوی شاعر کی مزاحمتی آہنگ سے لبریز شاعری آج بھی اپنی تمام تر توانائی کے ساتھ زندہ ہے۔
12 جنوری 1931 کو کوہاٹ میں پیدا ہونے والے احمد فراز کے 14 مجموعہ کلام تنہا تنہا، درد آشوب، شب خون، میرے خواب ریزہ ریزہ، بے آواز گلی کوچوں میں، نابینا شہر میں آئینہ، پس انداز موسم، سب آوازیں میری ہیں، خواب گل پریشاں ہے، بودلک، غزل بہانہ کروں، جاناں جاناں اور اے عشق جنوں پیشہ کے نام سے شائع ہوئے۔
اردو، فارسی اورانگریزی ادب میں ایم اے کرنے کے بعد احمد فراز نے عملی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا اور پشاور یونیورسٹی سے بطور لیکچرر بھی منسلک رہے۔
احمد فراز کی شاعری کا مرکز محبت اور غم جاناں تھا جس کی وجہ سے وہ نوجوانوں میں بے پناہ مقبول تھے مگر اس کے باوجود معاشرتی ناہمواریوں پر بھی ان کی شاعری اپنے ’وجود‘ کا بھرپور احساس دلاتی ہے۔
ساز و آواز سے منسلک اساتذہ اس بات پر متفق ہیں کہ جو نغمگی احمد فراز کی شاعری میں ملتی ہے وہ بہت کم شعرا کے کلام میں پائی جاتی ہے۔
ترقی پسند نظریات کے حامل احمد فراز کو ہلال امتیاز، ستارہ امتیاز، اور ہلال پاکستان جیسے اعزازات سے نوازا گیا لیکن جنرل ضیاالحق کے دور حکومت میں وہ پابند سلاسل رہے۔ وہ تقریباً چھ سال قید و بند کی صعوبتیں جھیلتے رہے۔ انہوں نے جلاوطنی بھی کاٹی۔ احمد فراز جنرل ضیاالحق کے دور حکومت میں کچھ عرصہ مختلف مغربی ممالک میں قیام پذیر رہے۔ اس دوران انہوں نے اپنی مشہور نظم ’’محاصرہ‘‘ لکھی۔ ملک میں سول حکومت قائم ہونے کے بعدآپ ایک اہم عہدے پر متمکن ہوئے۔
احمد فراز پاکستان کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے وہ شاعر ہیں جن کی غزلوں و نظموں کے تراجم انگریزی، روسی، جرمنی، ہندی، فرانسیسی اورسویڈش سمیت دیگر غیرملکی زبانوں میں کیے گئے۔
احمد فراز کی شعوری، فکری اور مسحورکن غزلوں و نظموں کے علاوہ ان کی فلمی شاعری کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔
دلچسپ بات ہے کہ احمد فراز نے کبھی بھی باقاعدہ فلمی شاعری نہیں کی لیکن ان کی غزلیں و گیت زبان زد عام ہوئے مگر انہیں گنگنانے والوں کی اکثریت بھی اس بات سے لاعلم رہی کہ وہ احمد فراز کی تخلیق ہیں۔
بہت سے نامور گلوکاروں نے ان کی شاعری کو چار چاند لگائے۔ مہدی حسن نے اپنی آواز کے جادو سے ’’رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ‘‘ اور “اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں” گائی جسے آج تک پورے ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ ان کی غزل ’’سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے‘‘ میڈم نور جہاں کے توسط سے کم و بیش ہر اس مقام تک پہنچی جہاں اردو سمجھی جاتی ہے اور یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے کو بھی بے پناہ شہرت ملی۔
احمد فراز 25 اگست 2008ء کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے لیکن لطیف انسانی جذبوں کے پُراثر اظہار کی بدولت ان کی شاعری آج بھی تروتازہ محسوس ہوتی ہے۔ ان کے اشعار نہ صرف عام لوگ دہراتے دکھائی دیتے ہیں بلکہ کمال یہ ہے کہ مقتدر طبقے سے تعلق رکھنے والے بھی اپنے بیانات، تقاریراور ٹویٹس میں ان کا حوالہ دیتے نظر آتے ہیں۔