اردو ادب کی مشہور و معروف شاعرہ اداؔ جعفری کی آج 97 ویں سالگرہ منائی جارہی ہے۔ادا جعفری 22 اگست 1924ء کو بدایوں میں ایک بڑے زمیندار کی حویلی میں پیدا ہوئی۔
ادا جعفری کو اردو شاعری کی خاتون اول بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا شمار بہ اعتبار طویل مشق سخن اور ریاضت فن کے صف اول کی معتبر شاعرات میں ہوتا ہے۔
مشہور غزل “ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرے نام ہی آئے۔۔۔آئے تو سہی برسر الزام ہی آئے”۔ یہ وہ غزل ہے جو ادا جعفری اور گائیک استاد امانت علی خان دونوں کی خاص پہچان بنی۔
ادا جعفری کا خاندانی نام عزیز جہاں تھا۔باپ مولوی بدرالحسن خاندانی وڈیرے اور ساتھ ہی پکے مسلمان بھی تھے۔گھر میں نوابی ٹاٹھ اور اسلامی رنگ یوں ملے جلے تھے جیسے مالٹے میں کھٹاس اور مٹھاس ملے جلے ہوں۔
باہر خاندانی رکھ رکھاؤ اور روایت کے سوا کوئی پابندی نہیں۔ اندر بند بندھا ہوا تھا۔باہر آرام دہ زندگی تھی۔اندر بے چینی ہی بے چینی۔باہر حکومت تھی دبدبہ تھا۔اندر خوف منہ پھاڑے بیٹھا تھا۔ اندر بے نام خوف بے مقصد جھجک۔باہر چہل پہل تھی اندرتنہائی۔باہر آوازوں کا میلہ لگا ہوا تھا اندر خلا سی چپ۔ ادا جعفری کی نفسیات کے تین جزو اعظم تھے۔گونگی،تنہا،سہمی ہوئی۔
جس طرح تار اور لرزش مل جائیں تو سر پیدا ہوتی ہے اسی طرح گونگا پن اور تنہائی مل جائیں تو شعر رسنے لگتے ہیں۔
اداؔ کی بدقسمتی یہ تھی کہ قدرت کی طرف سے شعر و سخن کی صلاحتیں نہیں ملی تھیں بلکہ اسے گھڑی گھڑائی بنی بنائی شاعرہ بنا کر پیدا کیا گیا تھا۔فن قدرت کی ایک ایسی دین ہے جو بیک وقت رحمت بھی ہے اور عذاب بھی۔فن کی جھاڑی پر جب تک پھول پتیاں نہیں پھوٹتیں مسلسل عذاب رہتا ہے۔جب پھول لگتا ہے تو دوآتشہ ہو جاتا ہے۔
اداؔ کا بچپن کرب ناک تھا۔بظاہر سب ہی کچھ حاصل تھا۔بہ باطن بے چینی اور ویرانی تھی۔خوش گوار ماحول سے اکتاہٹ تھی۔ہجوم سے گھبراہٹ تھی۔کوئی کھیل اچھا نہ لگتا تھا۔کوئی تفریح جاذب نظر نہ تھی۔بچپن مسلسل رو رو کڑ کاٹا۔یہ بھی معلوم نہ تھا کہ کیوں روتی ہوں۔کیوں اداس ہوں کیوں اکتائی ہوئی ہوں۔
بچپن ہی سے والد سے محبت لگا بیٹھی۔اسے دیوتا بنا لیا۔بن بتاۓ چپ چاپ آرتی میں پھول سجا کر بیٹھ گئی۔یہ فادر فکیشن شاید اس لیے ضروری تھا کہ اداؔ کی نفسیات کی تین خصوصیات کو ایک رخ دے کر شعر و سخن کی آمد کا راستہ ہموار کیا جاۓ۔
جب وہ تین سال کی تھی تو باپ وفات پا گۓ۔ اداؔ پہ یہ راز کھولا نہ گیا۔ان سے کہہ دیا گیا کہ والد بیمار ہیں اور علاج معلجے کے لیے باہر گۓ ہوۓ ہیں۔سالہا سال اداؔ والد کا انتظار کرتی رہی روتی رہی دعائیں مانگتی رہی کہ ابا لوٹیں اور میں ابا کہہ کر بلانے کی خوشی حاصل کر سکوں۔ان دنوں اسے سب سے بڑا دکھ یہ تھا کہ کوئی ہو جسے ابا کہہ کر بلایا جا سکے۔پھر والدہ کو شاید ترس آ گیا۔لڑکی کو باپ کی قبر پر لے گئیں۔اسے سمجھایا کہ والد وفات پا چکے ہیں واپس نہیں آئیں گے کبھی نہیں۔ دکھ ہوا۔لیکن انتظار کی گھڑیاں گننے سے مخلصی حاصل ہوئی۔قید سے رہائی مل گئی۔
والد کی وفات کے بعد بھی اداؔ اپنے نانا کی حویلی میں پرورش پاتی رہی۔اس کے خاندان میں روایت تھی کہ شادی کے بعد لڑکی کی رخصتی نہیں کی جاتی تھی۔دولہا گھر جوائی کی حیثیت سے رہتا تھا۔
خاندان کی روایت کے مطابق لڑکی کو مکتب میں نہیں بھیجا جاتا تھا۔ تھوڑی سی تعلیم گھر پر ہی دلوا دی جاتی۔والدہ نے اداؔ کی توجہ کتابوں کی طرف مبذول کر دی حصل تعلیم سے پہلے اندر کی چمبے کی بوٹی نے سر اٹھایا اور جان لبوں تے آئی ہو۔9 سال کی عمر میں پہلی نظم “پکار” یوں باہر نکلی جیسے بچے کا پہلا دانت باہر نکلتا ہے۔12 سال کی عمر میں اداؔ چھپنے لگی۔چھپنے کی خواہش نہ تھی پبلسٹی سے خائف تھی اور رہی۔
ظاہر ہے کہ اداؔ کے پاس اس عمر میں کچھ بھی نہ تھا نہ مطالعہ نہ تجربہ کھاتے پیتے نوابی گھر میں مطالعہ کی نہ حاجت تھی نہ اہمیت۔گونگے اور اکیلے پن نے بیرونی دنیا سے رابطہ قائم نہ ہونے دیا۔لٰہذا مشاہدہ اور تجربہ کا امکان ہی نہ رہا تھا۔اداؔ کے پاس لے دے کے ایک ریسیور تھا،پتہ نہیں بولنے والے سرے پر کون تھا۔ کوئی تھا جس کا پیغام موصول کرنے پر اداؔ مجبور تھی۔جس طرح انڈہ دینے کے وقت مرغی کونے تلاش کرتی ہے اور بالاخر صندوق کے نیچے جا بیٹھتی ہے اسی طرح اداؔ کونے تلاش کرنے پر مجبور ہوتی۔اس نے اسٹور روم میں صندوقوں کے اوپر ایک کونا بنا رکھا تھا وہاں بیٹھ کر لکھتی ۔اس پیغام وصولی میں کوئی ترتیب نہ ہوتی تھی۔لیکن احساس ضرور ہوتا تھا کہ یہ مصرع پہلا نہیں آخری ہے۔
جوں جوں وقت گذرتا گیا مطالعہ کا جنون بڑھتا گیا۔والدہ نے سکول بھی بھیجا لیکن جلد ہی اسکول سے اٹھا لیا۔پھر ایک ٹیوٹر رکھ دیا۔پرائیویٹ طور پر میٹرک کیا۔ایف اے کا کورس بھی گھر پر ہی پڑھا۔
منجھلی بہن کے میاں جمال احمد رضوی سے بہت متاثر تھی۔رضوی نے کتابوں کے چناؤ اور حصول میں بہت مدد کی۔کتابوں کے سوا زندگی میں اور کوئی مشغلہ نہ تھا۔ گھر کے کام کاج سے قطعی دلچسپی نہ تھی۔نہ سوئی نہ سلائی۔کھانا پکانا شادی کے بعد میاں کے گھر میں سیکھا۔جب کتابیں ہی اوڑھنا بچھونا ہوں تو امکان غالب ہوتا ہے کہ زندگی کتابی بن کر رہ جاۓ۔علم کی عظمت سے انکار نہیں لیکن اگر زندگی سے بے تعلق ہو تو افریت پن بن جاتا ہے۔ اداؔ کے زندگی سے بے تعلق ہونے کے باوجود مسلسل مطالعہ اسے کتابی نہ بنا سکا علم افریت نہ بنا سکا۔ریسیور کے دوسرے سرے سے تازہ ہوا آتی رہی۔بانسری میں پھونک بھرتی رہی تاروں میں لرزش روں دواں رہی نغمہ پیدا ہوتا رہا۔ اداؔ لکھتی رہی موضوع صرف ایک شعر و سخن یا تو شعر کہتی اور یا شاعری پر تنقیدی مضامین لکھتی۔21 سال تک اداؔ کی زندگی سپاٹ رہی۔
ازلی طور پر اس میں محبت کے جذبے کی فراوانی تھی ۔شدت کی محبت نہیں۔ مدھم محبت سے یوں سرشار تھی۔جیسے گنا رس سے بھرا ہوتا ہے۔پہلے محبت والد پر مرکوز ہو گئی۔ان کے انتقال کے بعد اس کا رخ بچوں کی جانب مڑ گیا۔اسے بچے بہت پیارے لگتے تھے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید شادی اس کے لیے کبھی قابل قبول نہ ہوتی۔اکیلی۔تنہا،ڈری ہوئی سہمی ہوئی بے زبان گونگی شخصیت کے لیے شادی کا خٰال ہی سوہان روح ہو جاتا۔
1947ء میں ان کی شادی طے ہو گئی اور وہ اداؔ بدایونی سے ادا جعفری بن گئیں۔اس شادی کی کامیابی کے امکانات بہت کم تھے۔نہیں کم نہیں ۔سرے سے تھے ہی نہیں۔ اس ازدواجی زندگی میں جو دو پہیۓ لگے وہ ہم آہنگ نہیں تھے۔ایک گول تھا دوسرا چوکور۔میاں خارجی علوم سے آراستہ تھے بیوی کے پاس تاروں کی رم جھم کے سوا کچھ نہ تھا۔میاں حقیقت پسند تھے۔ بیوی خوابوں کی دنیا کی بسی تھی، میاں خاندانی رکھ رکھاؤ کے دلداہ۔بیوی خاندانی رکھ رکھاؤ سے بیزار تھی۔میاں بیوروکریٹ تھے بیوی کے لئے یہ امر ایک رکاوٹ تھی۔
حیرت ہے کہ یہ شادی کیسے کامیاب ہو گئی۔ اس شادی کی کامیابی کے لیے اداؔ کے پاس صرف ایک چیز تھی۔مدھم محبت کی مسلسل لرزشیں۔جعفری کی نسبی اور ذاتی شرافت نے اس شادی کو کندھا دیئے رکھا۔ اس کامیابی پر دونوں ہی وکٹوریہ کراس کے مستحق ہیں۔اس ظاہری کامیابی کے باوجود اداؔ میں کوئی فرق نہیں آیا۔وہ وہی اداؔ رہی۔اکیلی تنہا گونگی۔ادھر سے انجانی چھیڑ ادھر تاریں ہی تاریں۔میاں اس نظر سے اوجھل راز کو نہ سمجھے۔انہوں نے اداؔ کی شخصیت کے اس پہلو کو نہ سمجھا نہ قبول کیا بچے بڑے ہوئے تو وہ بے گانہ رہے۔
اداؔ نے مجبوراۤ اس رستے بستے گھر میں الگ سے ایک خفیہ گوشہ بنا لیا جہاں بیٹھ کر وہ انجانے شام مراری کی بانسری سنتی۔سر دھنتی اور گھر والے حیران ہوتے کہ سدھ کس نے بسرائی۔یہ مستی کہاں سے آئی۔شادی کے بعد اداؔ نے ایک کام ضرور کیا اس ڈر کے مارے کہ کہیں چوری نہ کھل جاۓ۔خود کو چھپانے کے لیے خود کے گرد احتیاط کا دبیز جالا بن کر وہ خاتون تخلیق کر لی جو جعفری کے گھر میں بیگم بنی بیٹھی رہی۔
اداؔ کے لکھنے کے کوائف وہی پرانے تھے پہلے اسٹور روم میں ٹرنکوں کے اوپر کونے میں بیٹھ کر لکھتی تھی میاں کے گھر اب وہ کونا الگ نہیں لیکن الگ رہا۔ڈیڑھ اینٹ دکھائی نہیں دیتی تھی لیکن مسجد جوں کی توں قائم رہی۔
شادی کے بعد 1948ء میں اداؔ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا لیکن اس کی زندگی نے وفا نہ کی۔اداؔ کو اتنا صدمہ ہوا کہ بکھر کر رہ گئی تھی۔دو سال کمیونیکیشن کا سلسلہ بند رہا۔دو سال کے بعد بیٹی پیدا ہوئی۔ممتا جاگی۔یوں جیسے بوتل سے جن نکلتا ہے۔دو سال ماں نے شعر کہنے نہ دیا۔کوشش بہت کی لیکن بے کار رابطہ بحال نہ ہوا۔
پھر جعفری کے بھائی ضیاء الدین عباسی کی شہادت کی خبر آئی تو نہ جانے کیا ہوا۔دفعتاۤ زنگ آلود تاروں میں لرزش پیدا ہوئی۔رابطہ بندھا ،میرے شہید کی تخلیق ہوئی۔اس 007 کا بھید نہیں کھلتا کون جانے کن حالات میں بولے کن حالات میں چپ سادھ لے۔
جب وہ زیر لبی جاری کرتا ہے اور تخلیق عمل میں آتی ہے تو ایک عجیب سی سرشاری چھا جاتی ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کی اداؔ کو اپنا کلام سنانے سے دلچسپی نہیں تھی۔حالانکہ عام طور پر شاعر کے لیے کلام سنانا ایک مجبوری ہوتی ہے۔ایسی مجبوری جو زچ کر کے رکھ دیتی ہے،لیکن اداؔ اس مجبوری سے آزاد تھی۔بے نیاز ہے اسے تخلیق کی سرشاری سے تعلق تھا۔سنانا لازم نہیں ۔کوئی داد دے نہ دے اس کے لیے چنداں فرق نہیں پڑتا تھا۔الٹا پبلسیٹی سے وہ بہت خائف رہتی تھیں۔بچپن میں وہ اکثر خواب دیکھا کرتی تھی۔دیکھتی کہ وہ اللہ کے حضور سر نوائے باادب کھڑی ہے۔دفعتاۤ اللہ میاں کی گرج دار آواز آتی ہے، لڑکی تو کس سے ملنا چاہے گی۔گھبرا جاتی کہتی اللہ حضور مجھے غالب سے ملوا دیجیۓ۔حافظ سے ملوا دیجیۓ۔مولانا رومی سے ملوا دیجیۓ۔
اور پھر 12 مارچ 2015ء کو قبرستان کے ایک کونے میں جا بسیں۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ مرحومہ کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادا جعفری کے منتخب کلام:
ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے
آئے تو سہی، برسر الزام ہی آئے
حیران ہیں، لب بستہ ہیں، دل گیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی ترا پیغام ہی آئے
تاروں سے سجا لیں گے رہ شہر تمنا
مقدور نہیں صبح، چلو شام ہی آئے
کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے
جس رہ سے چلے، تیرے درو بام ہی آئے
تھک ہار کے بیٹھے ہیں سر کوئے تمنا
کام آئے تو پھر جذبۂ ناکام ہی آئے
باقی نہ رہے ساکھ اداؔ دشت جنوں کی
دل میں اگر اندیشۂ انجام ہی آئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈھلکے ڈھلکے آنسو ڈھلکے
چھلکے چھلکے ساغر چھلکے
دل کے تقاضے، اُن کے اشارے
بوجھل بوجھل، ہلکے ہلکے
دیکھو دیکھو دامن اُلجھا
ٹھہرو ٹھہرو ساغر چھلکے
اُن کا تغافل اُن کی توجّہ
اِک دل اُس پر لاکھ تہلکے
اُن کی تمنّا، اُن کی محبّت
دیکھو سنبھل کے دیکھو سنبھل کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہرشخص پریشان سا حیراں سا لگے ہے
سائے کو بھی دیکھوں تو گریزاں سا لگے ہے
کیا آس تھی دل کو کہ ابھی تک نہیں ٹوٹی
جھونکا بھی ہوا کا ہمیں مہماں سا لگے ہے
خوشبو کا یہ انداز بہاروں میں نہیں تھا
پردے میں صبا کے کوئی ارماں سا لگے ہے
سونپی گئی ہر دولتِ بیدار اسی کو
یہ دل جو ہمیں آج بھی ناداں سا لگے ہے
آنچل کا جو تھا رنگ وہ پلکوں پہ رچا ہے
صحرا میری آنکھوں کو گلستاں سا لگے ہے
پندار نے ہر بار نیا دیپ جلایا
جو چوٹ بھی کھائی ہے وہ احساں سا لگے ہے
ہر عہد نے لکھی ہے میرے غم کی کہانی
ہر شہر میرے خواب کا عنواں سا لگے ہے
تجھ کو بھی ادا جرأتِ گفتار ملی ہے
تو بھی تو مجھے حرفِ پریشاں سا لگے ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی نہیں کہ زخم ِ جاں کو چارہ جُو ملا نہیں
یہ حال تھا کہ دل کو اسمِ آرزو ملا نہیں
ابھی تلک جو خواب تھے چراغ تھے گلاب تھے
وہ رہگزر کوئی نہ تھی کہ جس پہ تو ملا نہیں
تمام عمر کی مسافتوں کے بعد ہی کھلا
کبھی کبھی وہ پاس تھا جو چار سو ملا نہیں
وہ جیسے ایک خیال تھا جو زندگی پہ چھا گیا
رفاقتیں تھیں اور یوں کہ روبرو ملا نہیں
تمام آئینوں میں عکس تھے مری نگاہ کے
بھری نگر میں ایک بھی مجھے عدو ملا نہیں
وارثوں کے ہاتھ میں جو اک کتاب تھی ملی
کتاب میں جو حرف ہے ستارہ خُو ملا نہیں
وہ کیسی آس تھی ادا جو کو بکو لیے پھری
وہ کچھ تو تھا جو دل کو آج تک کبھو ملا نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ فخر تو حاصل ہے بُرے ہیں کہ بھلے ہیں
دو چار قدم ہم بھی تیرے ساتھ چلے ہیں
جلنا تو چراغوں کا مقدر ہے ازل سے
یہ دل کے کنول ہیں کہ بجھے ہیں نہ جلے ہیں
تھے کتنے ستارے کہ سرِ شام ہی ڈوبے
ہنگامہِ سحر کتنے ہی خورشید ڈھلے ہیں
جو جھیل گئے ہنس کے کڑی دھوپ کے تیور
تاروں کی خنک چھاؤں میں وہ لوگ جلے ہیں
ایک شمع بجھائی تو کئی اور جلا لیں
ہم گردش ِ دوراں سے بڑی چال چلے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکست
بال آیا نہ چھنک کے ٹوٹے
ٹوٹنا جن کا مقّدر ٹوٹے
لب پہ الفاظ تو خواب آنکھوں میں
وہ ستارے ہوں کہ ساغر ٹوٹے
حسن ِتخلیق کی توہین ہوئی
ناز تخیل کی شہہ پر ٹوٹے
نذر ِ تادیب ہے ناگفتہ بیاں
نا تراشیدہ بھی پیکر ٹوٹے
تم اِک امید کی خاطر روئے
اِس صنم زار میں آذر ٹوٹے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر کا رستہ بھی ملا تھا شاید
راہ میں سنگِ وفا تھا شاید
اِک ہتھیلی پہ دیا ہے اب تک
ایک سورج نہ بجھا تھا شاید
اس قدر تیز ہوا کے جھونکے
شاخ پر پھول کِھلا تھا شاید
لوگ بے مہر نہ ہوتے ہوں گے
وہم سا دل کو ہُوا تھا شاید
خونِ دل میں تو ڈبویا تھا قلم
اور پھر کچھ نہ لکھا تھا شاید
تجھ کو بُھولے تو دعا تک بُھولے
اور وہی وقتِ دعا تھا شاید
موجہ ٴ رنگ بیاباں سے چلا
یا کوئی آبلہ پا تھا شاید
رُت کا ہر آن بدلتا لہجہ
ہم سے کچھ پوچھ رہا تھا شاید
کیوں ادا ؔ کوئی گریزاں لمحہ
شعر سننے کو رُکا تھا شاید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے ہی خیال آ گیا ہے
یا دل میں ملال آ گیا ہے
آنسو جو رکا وہ کشت جاں میں
بارش کی مثال آ گیا ہے
غم کو نہ زیاں کہو کہ دل میں
اک صاحب حال آ گیا ہے
جگنو ہی سہی فصیل شب میں
آئینہ خصال آ گیا ہے
آ دیکھ کہ میرے آنسوؤں میں
یہ کس کا جمال آ گیا ہے
مدت ہوئی کچھ نہ دیکھنے کا
آنکھوں کو کمال آ گیا ہے
میں کتنے حصار توڑ آئی
جینا تھا محال آ گیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظم – وہ لمحہ جو میرا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک دن
تم نے مجھ سے کہا تھا
دھوپ کڑی ہے
اپنا سایہ ساتھ ہی رکھنا
وقت کے ترکش میں جو تیر تھے کھل کر برسے ہیں
زرد ہوا کے پتھریلے جھونکوں سے
جسم کا پنچھی گھایل ہے
دھوپ کا جنگل پیاس کا دریا
ایسے میں آنسو کی اک اک بوند کو
انساں ترسے ہیں
تم نے مجھ سے کہا تھا
سمے کی بہتی ندی میں
لمحے کی پہچان بھی رکھنا
میرے دل میں جھانک کے دیکھو
دیکھو ساتوں رنگ کا پھول کھلا ہے
وہ لمحہ جو میرا تھا وہ میرا ہے
وقت کے پیکاں بے شک تن پر آن لگے
دیکھو اس لمحے سے کتنا گہرا رشتہ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظم
جان، تم کو خبری تک نہیں
لوگ اکثر برا مانتے ہیں
کہ میری کہانی کسی موڑ پر بھی
اندھیری گلی سے گزرتی نہیں
کہ تم نے شاموں سے ہر رنگ لے کر
مرے ہر نشان قدم کو دھنک سونپ دی
نہ گم گشتہ خوابوں کی پرچھائیاں ہیں
نہ بے آس لمحوں کی سرگوشیاں ہیں
کہ نازک مری بیل کو، اک توانا شجر
ان گنت اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے ہے
کوئی نا رسائی کا آسیب اس رہگزر میں نہیں
یہ کیسا سفر ہے کہ روداد جس کی
غبار سفر میں نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا جانیے کس بات پر مغرور رہی ہوں
کہنے کو جس راہ پہ چلایا ہے۔ چلی ہوں
تم پاس نہیں ہوتے تو عجب حال ہے دل کا
یوں جیسے میں کچھ رکھ کے بھول گئی ہوں
ترے لیے تقدیر میری جنبشِ ابرو
اور میں ترا ایمائے نظر دیکھ رہی ہوں
صدیوں سے میرے پاؤں تلے جنتِ انساں
میں جنتِ انساں کا پتا پوچھ رہی ہوں
دل کو تو یہ کہتے ہیں کہ بس قطرہ خوں ہے
کس آس پہ سنگِ سرِ راہ چلی ہوں
قسمت کے کھلونے ہیں اجالا کہ اندھیرا
دل شغلہ طلب تھا سو بہرحال جلی ہوں
ایک اور جگہ ادا کہتی ہے کہ۔
ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے
آئے تو سہی برسرِ الزام ہی آئے
حیران ہیں لب بستہ ہیں دلگیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی ترا پیغام ہی آئے
لمحاتِ مسرت ہے تصور سے گریزاں
یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے
تاروں سے سجائیں راہِ شہرِ تمنا
مقدور نہیں صبح چلو شام ہی آئے
کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے
جس رہ سے چلے ترے در وبام ہی آئے
تھک ہار کے بیٹھے ہیں سرکوئے تمنا
کام آئے تو پھر جذبہ ناکام ہی آئے
باقی نہ رہے ساکھ دشتِ جنوں کی
دل میں اگر اندیشہ انجام ہی آئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔