قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے عاشورا محرم الحرام 1443ھ کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ عاشورا حریت کی ایک تعبیر بن چکا ہے اور جب بھی عاشورہ کا ذکر ہوا تو انسان کے ذہن میں امام حسینؑ اور ان کی لازوال قربانی کا نقش اجاگر ہوا۔روز عاشور سے قبل شب عاشور بھی اپنے اندر ایک الگ تاریخ کی حامل ہے جب امام ؑ عالی مقام نے عاشورا کے حقائق سے اپنے ساتھیوں ، جانثاروں اور بنو ہاشم کو آگاہ کیا اور انہیں بتایا کہ عاشورا برپا ہونے کی عملی شکل کیا ہوگی؟ اور اس میں کس کس کو کیا کیا قربانی دینا پڑے گی؟
آپ نے جب اپنے اصحاب و انصارکو عاشورا کی حقیقت یعنی اٹل موت سے باخبر کیا تو ساتھ ساتھ انہیں اپنے راستے کے انتخاب کی آزادی بھی فراہم کی اور کسی قسم کا حکم یا جبر اختیار نہیں کیا بلکہ انہیں اختیار دیا کہ وہ عاشورا کے راستے کا انتخاب کریں یا کربلا سے چلے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ شب عاشور جب چراغ گل کرایا گیا تو انسانوں کی تقسیم نہ ہوئی بلکہ ضمیروں کی شناخت ہوئی۔ کھوکھلے دعوﺅں کی بجائے نظریہ کی پختگی کا اندازہ ہوا اور چند لمحوں کی وابستگی دائمی نجات کی ضامن بن گئی۔ آپؑ نے جبر کے ساتھ لوگوں کو اپنے ساتھ وابستہ نہ رکھ کر رہتی دنیا کے لئے ہدایت و رہنمائی چھوڑی کہ کشتیاں جلا کر لوگوں کو جبری شہادت کی طرف مجبور کرنا اور ہے جبکہ چراغ بجھا کر لوگوں کو ابدی نجات عطا کرنا اور ہے۔
محسن انسانیت‘ نواسہ پیغمبر اکرم سیدالشہدا ؑ حضرت امام حسین علیہ السلام نے بزور مسلط کی جانیوالی حکمرانی کوماننے سے انکار کردیاقرآن و سنت کے اصولوں ،بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی نفی پر مبنی جابرانہ نظام کو تسلیم نہ کیا، اوپرے کلچر اور تہذیب کو ٹھکرا دیا اور اصلاح امت ، معروف (نیکی) کو پھیلانے اورمنکر (برائی) کومٹانے کے لیے مدینہ سے ہجرت اختیار کی۔ یزید کا دور ایسا تھا کہ احکام اسلام کو کھلونا بناکر، اطاعت خداوندی کو ترک کرکے، شیطان کی پیروی کو اپنا نصب العین بنا کر، قرآنی احکامات اور سنت رسول میں تحریف کرکے، اسلامی تعلیمات کو نابود کرکے، عدل اجتماعی کے تصور کا خاتمہ کرکے، بنیادی انسانی حقوق سلب کرکے، معاشی و سماجی ناانصافی قائم کرکے، خدا کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال میں بدل کر، بدعتیں زندہ کرکے، فحاشی وعریانی کو فروغ دے کراور قومی خزانے کومخصوص مفادات و مقاصد کے لیے استعمال کر کے دین الہی میں تبدیلی کی جارہی تھی اور شریعت محمدی کا حلیہ بگاڑا جا رہا تھا۔کربلا ایک کیفیت‘ ایک جذبے‘ ایک تحریک اور ایک عزم کا نام بن چکی ہے۔واقعہ کربلا میں اس قدر ہدایت‘ رہنمائی اور جاذبیت ہے کہ وہ ہر دور کے ہر انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔
اس واقعہ کے پس منظر میں نواسہ رسول اکرم حضرت امام حسین علیہ السلام کی جدوجہد‘ آفاقی اصول اور پختہ نظریات شامل ہیں۔ آپ نے واقعہ کربلا سے قبل مدینہ سے مکہ اور مکہ سے حج کے احرام کو عمرے میں تبدیل کرکے کربلا کے سفر کے دوران اپنے قیام کے اغراض و مقاصد کے بارے میں واشگاف انداز سے اظہار کیا اور موت جیسی اٹل حقیقت کے یقینی طور پر رونما ہونے کے باوجود بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیںہوئے یہی وجہ ہے کہ حکمرانوں کی طرف سے ہر قسم کی پیشکش کو ٹھکرایا اور صرف قرآن و سنت کے نظام کے نفاذ کو ترجیح دی۔
عاشورا محرم ہر دور میں پیروکاران حسین ؑ کو یاددلاتاہے کہ جب اس قسم کے حالات پیدا ہوجائیں تو ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ قیام امام حسین ؑ سے درس حاصل کریں اور جن اہداف و مقاصد کیلئے امام ؑعالی مقام نے جدوجہد کی تھی ان کیلئے انفرادی و اجتماعی سطح پر بھر پور جدوجہد کریں ۔آخر میں قائد ملت جعفریہ پاکستان نے عزادارن کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ کورونا ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے عزاداری برپا کریں ۔