جامعہ کراچی کی مرکزی طعام گاہ سمیت بٰیشتر کینٹینز بند کردی گئیں

جامعہ کراچی میں مرکزی طعام گاہ سمیت 30 کینٹینز بند پڑی ہیں البتہ کیمپس میں رہاش پذیر افراد کے لیے دو ہوٹل، صوفی ہوٹل اور مجید ہوٹل کھلے ہیں۔

مرکزی طعام گاہ اورکینٹینز بظاہر خود کش حملے کے تناظر میں سیکیورٹی بنیاد پر بند ہیں لیکن اس بندش سے جامعہ کراچی کے 44 ہزار سے زائد طلباء و طالبات کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کھانے اور پینے کی اشیاء ناپید ہوچکی ہیں۔

گزشتہ ماہ جب خود کش حملہ ہوا تو اس وقت ماہ رمضان تھا تاہم عید کی تعطیلات کے بعد جامعہ کھلی تو سخت سیکیورٹی کو بنیاد بنا کر مرکزی طعام گا سمیت 30 کینٹینز کو بند کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے طلباء طالبات سخت پریشان ہیں۔

مئی کا مہینہ ہے اور سخت گرمی پڑھ رہی ہے طلبہ پہلے ہی اس سیکیورٹی پر پریشان ہیں کیوں کہ جامعہ کراچی کی انتظامیہ کی جانب سے کارڈز اور گاڑیوں کی چیکنگ کے نام پر طویل قطاریں لگوادی گئی ہیں۔

سلور جوبلی گیٹ پر گاڑیوں کی طویل قطاریں ہیں جبکہ طلبہ کو اپنا کارڈ چیک کرانے کے لیے قطاروں میں کھڑا رہنا پڑتا ہے، اس طرح یونیورسٹی آنے والے ملازمین اور یونیورسٹی کے اندر طلبہ و اساتذہ کی سہولت کے لیے موجود بینکوں اور پوسٹ آفس کا عملہ بھی قطاروں میں کھڑا رہا۔

ایک طالب علم نے جنگ کو بتایا کہ وہ لمبی قطار لگا کر جامعہ کراچی میں داخل ہوا تو شٹل دستیاب ہی نہیں تھی، اسے شعبہ کیمیاء پیدل جانا پڑا سخت پیاس لگی تھی تاہم کینٹین ہی بند پڑی تھی، طالبعلم نے کہا کہ اس سے بہتر تھا کہ جامعہ کراچی کو بند کردیا جاتا۔

ادھر سوشل میڈیا پر طلبہ نے جامعہ کراچی کی انتظامیہ کے اقدامات کے خلاف غصہ نکالنا شروع کردیا ہے۔

جویریہ شیخ نامی طالبہ نے لکھا ہے کہ ’سب برداشت ہے مگر کینٹین کھول دو پلیز، نہیں تو ہم بم کے بجائے بھوک سے مرجائیں گے۔‘

زین خان نے لکھا ’جو کام کرنے والے تھے وہ اپنا کام کر گئے اور یہاں فوٹو سیشن چل رہا ہے، جبکہ باہر ہزاروں لوگوں کی قطار لگی ہوئی ہے۔ ‘

صارم انصاری نے لکھا کہ ’پورے لاہور جتنی جامعہ میں سارے طالبعم ایک ہی سینسر مشین سے گزارے جارہے ہیں۔‘

سومو جمیل نے لکھا ’پہلی کلاس چیکنگ کے نام پر نکل گئی ہے۔‘

شبانہ آفاق نے لکھا کہ ’بدانتظامی کی انتہا ہے۔‘

آمنہ تنویر نے لکھا ہے کہ ’درست وقت پر جامعہ سے پڑھ کر نکل گئے ہیں۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں