کوئٹہ میں ینگ ڈاکٹرز کے احتجاج کا سلسلہ چار ماہ سے جاری ہے۔
تفصیلات کے مطابق ینگ ڈاکٹز نے کامیاب مزاکرات کے بعد نوٹیفکیشن جاری ہونے تک احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ینگ ڈاکٹرز و صوبائی حکومت مزاکرات کو 18 دن گزرنے کے باوجود مطالبات منظوری کا نوٹیفکیشن جاری نہ ہوسکا جس کی وجہ سے ینگ ڈاکٹرز کی او پی ڈی سڑک پر جاری ہے۔
ینگ ڈاکٹرز نے مطالبات منظور کو 18 روز گزرنے کے باوجود نوٹیفکیشن جاری نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ینگ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ جلد کور کمیٹی کا اجلاس بلا کر آگے کا بلائحہ طے کرینگے۔
واضح رہے کہ او پی ڈیز بند ہونے سے ینگ ڈاکٹرز کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
کچھ ہفتے قبل ہی صوبائی وزیر صحت سید احسان شاہ نے سرکٹ ہاؤس دالبندین میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے تھا کہا کہ ینگ ڈاکٹرز کا احتجاج سمجھ سے بالاتر ہے، ڈاکٹرز پر لاٹھی چارج مسئلے کا حل نہیں لیکن امن و امان قائم رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ینگ ڈاکٹرز کے مطالبات پر غور کرنے کے لیے کمیٹی بن چکی ہے، کمیٹی کی تشکیل کے باجود ریڈ زون پر دھرنا دے کر ڈیوٹی نہ کرنا بلا جواز ہے۔
انہوں نے کہا کہ تنخواہیں بڑھانے کے علاوہ ینگ ڈاکٹرز کے تمام مطالبات ماننے کو تیار ہیں، ڈاکٹرز کی تنخواہیں بڑھانے سے خزانے پر سالانہ 7 ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔
سید احسان شاہ کا کہنا تھا کہ بلوچستان معاشی طور پر کمزور ہے ہم دوسرے صوبوں کے برابر تنخواہیں نہیں بڑھا سکتے، اب بھی 17 گریڈ کے ڈاکٹر کی تنخواہ اسی گریڈ کے اسسٹنٹ کمشنر سے زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوشش کر رہے ہیں کہ کوئی درمیانی راستہ نکال کر ینگ ڈاکٹرز کا احتجاج ختم کیا جائے۔
صوبائی وزیر صحت کا مزید کہنا تھا کہ ضلعی سطح پر ڈپٹی کمشنر اور ڈی ایچ او ادویات کی خریداری کرسکتے ہیں، میڈیکل اسٹور ڈیپارٹمنٹ ایک کرپٹ ادارہ ہے جس سے خریداری کا اختیار واپس لے رہے ہیں۔