20 سالہ ملزم عامر پر قومی احتساب بیورو (نیب) کا جعلی افسر اور چیئرمین نیب کا خاص آدمی بن کر کروڑوں روپے اینٹھنے کے الزام کے کیس کی سماعت کے دوران دلچسپ حقائق سامنے آئے ہیں۔
نیب پراسیکیورٹر کا الزام تھا کہ ملزم عامر نے خود کو نیب کا افسر ہی ظاہر نہیں کیا بلکہ یہ تاثر بھی دیا کہ اُسے چیئرمین کی جانب سے بھیجا گیا ہے۔ یوں اُس نے سندھ حکومت کے اعلیٰ حکام سے غیرقانونی طور پر کروڑوں روپے وصول کیے۔
نیب پراسیکیوٹر نے سندھ ہائی کورٹ میں دعویٰ کیا کہ رقم سندھ حکومت کے اعلیٰ حکام سے وصول کی گئی، جن میں اسپیشل سیکرٹری ہوم ڈپارٹمنٹ عامر خورشید اور امداد علی شاہ سمیت دیگر حکام شامل ہیں جبکہ ملزم کا والد بھی نیب افسر بن کر سرکاری افسران سے پیسے بٹورتا رہا ہے۔
اس پر ملزم کے وکیل نے اعتراض کیا کہ 20 سال کا لڑکا سندھ حکومت کے اعلیٰ حکام کو کیسے لوٹ سکتا ہے؟ کیا رقم دینے والے چیئرمین نیب کو نہیں جانتے؟ اور اگر واقعی ایسا ہوا ہے تو سندھ حکومت کے ان افسران کے خلاف بھی کارروائی بنتی ہے۔
اس موقع پرعدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ آپ کے پاس ریفرنس فائل کرنے کیلئے 90 روز ہوتے ہیں، ملزم 4 ماہ سے جیل میں ہے، اب تک ریفرنس فائل کیوں نہیں کیا؟
عدالت نے حکم دیا کہ آئندہ سماعت پر جواب جمع کرائیں کہ ملزم عامرکو کن ثبوتوں کی بنا پر گرفتار کیا گیا؟
عدالت نے ریفرنس فائل کرنے کیلئے 27 اگست تک کی آخری مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ 4 ماہ قبل نیب کے ہاتھوں گرفتار 20 سال کے ملزم عامر نے ضمانت کیلئے سندھ ہائی کورٹ میں دخواست دائر کی تھی۔