مجھے فخر ہے کہ میں پاکستانی ہوں۔ یہ وطن میری جان میری پہچان ہے اور دنیا بھر میں میرا مان بھی۔ لفظ ’پاکستانی‘ سے میرا رشتہ ویسا ہی ہے جیسے تتلی کا پھول سے پنچھی کا اڑان سے یا پھر جیسے کسی کا بھی اپنے نام سے ہوتا ہے۔
یہ شناخت میرے آبا ؤ اجداد نے بڑی تگ و دو اور قربانیوں کے بعد حاصل کی ہے، اب اس کو برقرار رکھنا اور اس پر فخر کرنا مجھ پر اس طرح فرض ہے جس طرح میں اپنے آبا ؤ اجداد کے چھوڑ ے ہوئے ترکے اور وراثت پر اپنا حق سمجھتا ہوں، اور یہ مجھ پر ہی کیوں، یہ ہر اس شخص پر فرض ہے جو اس مملکتِ خدادار میں پیدا ہوااور اپنے ساتھ لفظ پاکستانی رکھتا ہے۔
پاکستان اس چودہ اگست کو 74سال کا ہوجائے گااور قوم 74واں جشن آزادی منا رہی ہو گی۔بے شک زندہ دل قومیں اپنا یوم آزادی مناتی ہیں لیکن یہ باجے تاشے سڑکوں پر ڈانس، پٹاخے اور سلینسر نکلی موٹر سائیکل پر سواری یہ جشن آزادی نہیں بلکہ تفریح کے زمرے میں آتا ہے۔با وقار قومیں یوم آزادی باوقار طریقے سے مناتی ہیں۔میں سمجھتا ہوں کے گزشتہ چالیس سالوں میں پاکستان میں جو نسل پیدا اور جوان ہوئی، ان کی سوچ میں بتدریج کئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جس کی بڑی وجہ بالخصوص پاکستان کا سیاسی ماحول، قیادت سے عاری افراد کا لیڈر بن جانا، جس کے نتیجے میں گھمبیر معاشی مسائل، بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی اور روزمرہ کے مسائل کاوجود میں آنا ہے۔ آج کی نسل پاکستان سے محبت تو یقینا کرتی ہے کیونکہ یہ ان کے خون اور گھٹی میں شامل ہے لیکن محبت کا جنون اور عشق جو دیوانگی کی حد تک اپنے سے پچھلی نسل میں نظر آتا تھا وہ مفتود ہے۔
کسی مفکر کا قول ہے،محبت قربانی مانگتی ہے، عشق صلے سے بے پرواہ ہوتا ہے پیار دینے اور دیے جانے کا نام ہے۔اگر اس پہلو سے ہم خود کو پرکھیں تو پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس ملک کو کیا دے رہے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ اجتماعی سطح پر یہ سوال اٹھانے سے پہلے انفرادی طور پر خود سے یہ سوال پوچھیں تو جواب یہ ملے گا کہ ملک بھر میں صفائی گندگی اور بلدیاتی اداروں کی نا اہلی پر تبصرہ کرتے ہوئے ہم خود ہی ان میں شامل ہیں جو گاڑی میں سفر کرتے ہوئے شیشہ اتار کر خالی ریپر اور شاپر سڑک پر پھینک دیتے ہیں۔
ٹریفک پولیس کو برا بھلا کہتے ہوئے ہم خود بھی پہلے نکل جانے کی کوشش میں الٹی سیدھی ڈرائیونگ کرتے ہوئے ٹریفک جام کا حصہ بن جاتے ہیں۔ہم رشوت لینے والے کو برا سمجھتے ہیں اوران پر لعنت ملامت کرتے ہیں لیکن خود بھی ڈرائیونگ لائسنس، پاسپورٹ یا دیگرکاغذات بنوانے کے لیے اور یہاں تک کہ ٹریفک کی خلاف ورزی پر چالان کروانے کے بجائے رشوت دے کر جان چھڑاتے ہیں۔تعلیم کے معیار اور طبقانی تعلیمی نظام پر ماتم کرتے ہیں لیکن ہم خود ہی کوچنگ سینٹر اور پرائیویٹ ٹیوشن کے کلچر کو فروغ دینے کے ذمہ دار ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ اکژیت حکومتِ وقت یعنی جتنی حکومتیں ابھی تک پاکستان میں آئی ہیں ان کی غلط پالیسیوں اور نا اہلی کو ان تمام اسباب کا ذمہ دار قرار دے جس سے مجھے کلی اختلاف نہیں تاہم اس کے ساتھ یہ حقیقت ہے کہ بحیثیت پاکستانی ہم اپنے قومی اور شہری فرائض سے غفلت کے مرتکب ہوتے چلے آرہے ہیں اور اب یہ غفلت سنگینی کی انتہائی حدوں کو چھورہی ہے۔اس غفلت کی بنیادی وجہ اجتمائی سوچ کا فقدان ہے۔ ہم انفرادی طور پر اپنے گھر کی چار دیواری کو اپنا سمجھتے ہیں۔ہر بات کی ذمہ داری اداروں میڈیا، معاشرے، سیاسی رہنماؤں اور حکومت وقت پر ڈال کر ہم اپنے فرائض سے کیسے غافل ہو سکتے ہیں۔ہمیں معاشرے کے سیٹ اپ میں اپنے کردار کو سمجھناہو گااور انفرادی طور پر اپنے کردار کو نبھانا ہو گا۔یہ قدم صرف وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جن کے دلوں میں پاکستان سے سچی محبت ہے اور اپنی رگ و جان سے بھی قریب رکھتے ہیں۔
74واں جشن آزادی نزدیک ہے کیوں نہ اس موقع پر خود سے سوال کریں کہ کیا ہمیں اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہے یا کیا ہم اس پہچان پر واقعی فخر کرنا چاہتے ہیں۔ اگر جواب ہاں میں ہے تو یقین جانیے راستہ صاف اور منزل نزدیک ہے، اٹھیے اور اس جشن آزادی پر پاکستا ن کے ساتھ ساتھ خود سے بھی یہ تجدید عہد وفا کیجیے کہ یہ وطن ہمار ا ہے ہم ہی ہیں پاسباں اسکے۔
تحریر: مجاہدا لآفاق، گلشن اقبال، کراچی