وزیر اعظم عمران خان نے کراچی کے ایک روزہ دورے کے دوران انتہائی مصروف دن گزارا۔ انہوں نے سونمیانی کے ساحل پر شجر کاری مہم اور مختلف منصوبوں کا افتتاح کرنے کے علاوہ ترقیاتی منصوبوں کی پیشرفت کے حوالے سے جائزہ اجلاس میں شرکت کی۔
وزیر اعظم عمران خان نے کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے حوالے سے جاری مختلف ترقیاتی منصوبوں کی پیشرفت سے متعلق جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں وفاقی حکومت کے منصوبوں کی جلد تکمیل حکومت کی اولین ترجیح ہے، کراچی کے شہریوں کو صاف اور وافر مقدار میں پانی کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
اجلاس میں وزیرِ اعظم کو کراچی کے تین بڑے نالوں (محمودآباد، گجراور اورنگی) ملیراورلیاری کےدریاؤں اور نالوں کےاطراف سڑک کی تعمیر، سیوریج سسٹم اور یوٹیلیٹیز پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
چئیرمین این ڈی ایم اے نے بتایا کہ نالوں کا سروے مکمل کر لیا گیا ہے اور تجاوزات ہٹانے کا کام بھرپور طریقے سے جاری ہے۔وزیراعظم کو بتایا گیا کہ محمودآباد اور اورنگی نالے پر پیشرفت بالترتیب سو فیصد اور 98 فیصد ہے جبکہ گجرنالے پر سےتجاوزات ہٹانے میں 89 فیصد پیشرفت ہو چکی ہے،اورنگی اور محمودآباد نالوں کی صفائی میں پیش رفت کا تناسب 97 اور 90 فیصد ہےجبکہ گجر نالےپر پیشرفت 79 فیصد ہے،محمود آباد نالے پر آرسی سی دیوار کی تعمیر کا کام تکمیل کےنزدیک ہے، دوسرے نالوں میں بھی یہ کام تیزی پکڑے گا۔وزیرِ اعظم کو بتایا گیا کہ بقیہ سول ورکس جون 2022 تک مکمل کر لیا جائے گا۔
وزیراعظم کو گرین لائن اور اورنج لائن بی آر منصوبے کی پیش رفت سے بھی آگاہ کیا گیا۔ گرین لائن اس سال اکتوبر سے فعال ہو جائے گی، وسط ستمبر 2021 تک چین سے 80 بسیں پہنچ جائیں گی، اسی طرح حکومت سندھ کی درخواست پر ایس آئی ڈی سی ایل اورنج لائن کے لئے بیس بسیں منگوا رہی ہے جو اس سال دسمبر تک پہنچ جائیں گی۔
کراچی کے شہریوں کو پانی کی فراہمی کے منصوبے کے فور پر چئیرمین واپڈا کی جانب سے بریفنگ دی گئی۔ وزیرِ اعظم کو بتایا گیا کہ اس وقت کراچی 1200کیوسک پانی لے رہا ہے جس میں حب ڈیم سے 100ایم جی ڈی (ملین گیلن یومیہ) شامل ہے۔ کراچی کے عوام کو پانی کی فراہمی کے حوالے سے شدید مشکلات درپیش ہیں ، پانی کی اس شدید قلت کو پورا کرنے کے لئے حکومت سندھ کی جانب سے کے فور کا منصوبہ تشکیل دیا گیا ، اس پر حکومت سندھ کام کر رہی تھی جبکہ اس منصوبے کے لئے مالی وسائل سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کی جانب سے فراہم کئے جا رہے تھےلیکن یہ منصوبہ ایک دہائی سے تعطل کا شکار رہا، اب وفاقی حکومت اس منصوبے کو مکمل کر رہی ہے۔
وزیرِ اعظم کو بتایا گیا کہ 85 کلومیٹر کا سروے آئی ایل ایف کے سٹاف اور کنسلٹنٹس کی جانب سے مکمل کیا گیا، منصوبے کا حتمی ڈیزائن اکتوبر2021تک مکمل کر لیا جائے گا، منصوبہ اکتوبر 2023 تک مکمل کر لیا جائے گا۔ وزیر اعظم کو فریٹ کاریڈور کیماڑی تا پپری مارشلنگ یارڈ اور ماڈرن کراچی سرکولر ریلوے منصوبے پر بھی بریفنگ دی گئی۔
وزیرِ اعظم کو بتایا گیا کہ 50کلومیٹر طویل کراچی پورٹ تا پپری فریٹ کاریڈورمیں کوریڈور کی تعمیر، سڑک کو دورویہ کیا جانا اور اپ گریڈیشن شامل ہے،ملک کے مختلف علاقوں میں جانے والے 40فیصد کارگو ٹرانسپورٹ اس کوریڈور کے ذریعے ہوگی، اس منصوبے کی فزیبلٹی مکمل کر لی گئی ہے اور اس منصوبے کو اکتوبر 2021میں مارکیٹ میں پیش کر دیا جائے گا۔ کے سی آر منصوبے میں 43کلومیٹر ورلڈ کلاس ماس ٹرانزٹ سسٹم اور ماحول دوست الیکٹرک ٹرین شامل ہیں، منصوبے کی فزیبلٹی مکمل کر لی گئی ہے، جیسے ہی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی کی جانب سے ٹرانزیکشن کا خاکہ اور بڈنگ کی دستاویزات منظور کر دی جائیں گی اس منصوبے کو نومبر 2021تک مارکیٹ میں لایا جائے گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ کراچی کے شہریوں کو صاف اور وافر پانی کی فراہمی کو جلد از جلد یقینی بنایا جائے اور اس مقصد کے لئے تکنیکی اور مالی طور پر ممکنہ طریقے بروئے کار لائے جائیں۔ وزیرِ اعظم نے تمام متعلقین کو جاری منصوبوں کو ٹائم لائنز کے تحت مکمل کرنے کو یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ تمام منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کیا جائے تاکہ کراچی کی عوام کو ان کے ثمرات میسر آسکیں، کراچی میں وفاقی حکومت کی جانب سے جاری منصوبوں کی جلد از جلد تکمیل اور اعلان شدہ منصوبوں کا اجرا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے کہا کہ اس وقت وزیرِاعظم کی تمام تر توجہ کراچی شہر پر ہے کیونکہ ملک کا معاشی حب ہونے کے ناطے اس شہر کی خاص اہمیت ہے۔
اس سے قبل وزیر اعظم نے بلوچستان کے شہر لسبیلہ کے قریب سونمیانی کے ساحل پر پودے لگانے والے کارکنوں اور مقامی افراد سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے تقریباً سارا پاکستان دیکھا ہے، شاید ہی کوئی علاقے ہیں جہاں میں نہیں گیا لیکن بلوچستان میں زیادہ علاقوں میں نہیں جا سکا تو آج مجھے ادھر آنے کا موقع ملا جس پر میں خود کو خوش قسمت تصور کرتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں جب پاکستان کے مختلف علاقوں میں جاتا ہوں تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اللہ نے پاکستان کو کتنی نعمتیں بخشی ہیں، یہ اللہ کا بڑا تحفہ ہے لیکن ساتھ ساتھ افسوس بھی ہوتا ہے کہ اللہ کی ان نعمتوں سے ہمیں جس طرح انصاف کرنا چاہیے تھا، وہ ہم نے نہیں کیا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم لسبیلہ کو سیاحتی مقام بنا سکتے ہیں جس سے مقامی لوگوں کی زندگی بہتر ہو گی اور ان کو روزگار ملے گا، وہ اپنے بچوں کو پڑھا سکیں گے اور وہ آگے بڑھ سکیں گے، یہ حکومت کی اولین ذمے داری ہوتی ہے کہ ہم اپنے لوگوں کی زندگی بہتر کیسے کر سکتے ہیں، کیسے ان کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے بعد انہیں خوشحال کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم یہاں صنعت تو نہیں لگا سکتے ہیں لیکن یہاں پر ٹورزم ریزورٹ بنا سکتے ہیں لیکن ایسی سیاحت ہرگز نہیں جو ہماری روایات اور دین کے خلاف ہو بلکہ ہم ایسی سیاحت کو فروغ دے سکتے جس سے مسلمان ممالک سے بڑی تعداد میں لوگ یہاں آئیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ اسلامو فوبیا کی وجہ سے ہمارے مسلمان بھائی بہن اب یورپ سمیت ایسی کئی جگہوں پر نہیں جا پاتے جہاں وہ پہلے بآسانی چھٹیاں منانے جاتے تھے لیکن اب انہیں اسلاموفوبیا کی وجہ سے ان ممالک میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ ایسی جگہوں پر اپنے لوگوں کو نہیں لے جانا چاہتے تو پاکستان میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ یہاں مسلمان ملکوں سے لوگ سیاحت کے لیے آئیں۔
اس موقع پر انہوں نے سونمیانی کے علاقے کو سیاحت کے لیے بہتر طور پر استعمال کرنے کے لیے وزیر اعلیٰ بلوچستان سے سفارشات طلب کیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے سیاحت کے لیے صحیح طرح سے کام نہ کیا تو اس کا غلط استعمال ہو جائے گا کیونکہ ہمارے کئی علاقے تباہ ہو چکے ہیں جیسے مری میں انتہا سے زیادہ تعمیرات ہو چکی ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ اب ہم پہلی مرتبہ پاکستان میں ان پہاڑی علاقوں میں ترقیاتی کام کررہے ہیں جو پہلی مرتبہ کسی پاکستانی نے تیار کیے ہیں ورنہ مری، نتھیا گلی اور گلیات جیسے علاقے تو انگریزوں کے زمانے سے سیاحتی مقام ہیں اور انہوں نے گرمی کی وجہ سے ان علاقوں کو بنایا تھا لیکن ساحلی پٹی پر کوئی کام نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم اپنے ملک کو موسمی اثرات سے بچانے کے لیے بہت آگے نکل چکے ہیں اور اس سلسلے میں کئی اقدامات کیے گئے ہیں اور حال ہی میں دنیا کے بہترین سائنسدانوں نے رپورٹ دی ہے کہ دنیا کا موسم اس تیزی سے گرم ہو رہا ہے کہ کئی علاقوں میں رہنا مشکل ہو جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم خوش قسمت ہے کہ ہمارے یہاں مینگرووز کے درخت ہیں کیونکہ مینگرووز موسم گرم ہونے کے نظام کو روکتا ہے اور ہمیں ناصرف ان کی حفاظت کرنی ہے بلکہ ان کو بڑھانا بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب ہم نے فیصلہ کیا کہ بلوچستان پر مکمل توجہ دینی ہے اور ہم بلوچستان پر ایک ہزار ارب خرچ کررہے ہیں جہاں پاکستان کی تاریخ میں آج تک اس صوبے پر اتنا پیسہ خرچ نہیں کیا گیا۔
عمران خان نے کہا کہ اگر بلوچستان ترقی کرے تو پاکستان ترقی کرے گا، ہم بلوچستان کی معدنیات کے بہتر استعمال کی بھی کوشش کررہے ہیں۔
کراچی کے ایک روزہ دورے پر آئے وزیر اعظم عمران خان کا کراچی شپ یارڈ میں شپ لفٹ اینڈ ٹرانسفر سسٹم (ایس ایل اینڈ ٹی ایس) کا افتتاح کرنے کے بعد اس حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ‘جس طرح ماضی میں ہم آگے بڑھ رہے تھے، اپنے صلاحیت کے مطابق اپنی منزل نہیں حاصل کرسکے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ہم اپنی صلاحیت پر اعتماد رکھتے ہوئے اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر آگے بڑھتے لیکن ہم آسان راستے پر چلے گئے اور درآمدات پر منحصر معیشت بن گئے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہم نے اپنی قوت نہیں پہچانی، انسان میں یہ صلاحیت ہے کہ اپنے بازو سے بوجھ اٹھاتا رہے تو وہ مضبوط ہوگا اگر انہیں استعمال کرنا چھوڑ دیں تو وہ ناکارہ ہوجائیں گے’۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ‘قومیں بھی اس طرح ہوتی ہیں جو فیصلہ کرلیں کہ سب کچھ خود کریں گی تو اللہ قوم کو مضبوط کردیتا ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اب پھر سے کوشش ہورہی ہے کہ ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہوں، ہم اب 7 ہزار 400 ٹن کو لفٹ کرسکیں گے اور ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنے ملک غیر ملکی زرمبادلہ بچائیں گے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘پاکستان سیدھے راستے پر آچکا ہے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم سے کم ہوچکا ہے اب ہمارا ہدف سرمایہ کاری لانا ہے، منی لانڈرنگ روکنی ہے اور جو چیزیں درآمد کرتے ہیں اس کی اپنے ہی ملک میں پیداوار کرنی ہے’۔