کینیڈین شہری نے کرونا کے خلاف عدالتی جنگ جیت لی، کینیڈین صوبے Alberta میں لاک ڈاون، ماسک پابندیاں اور زبردستی ویکسینیشن سب کچھ ختم کردیا گیا ہے۔
اب وہاں کرونا کو سرکاری سطح پر “وباء” کے بجائے عام “فلو وائرس” کہا جارہا ہے۔ خوف و ہراس عدالتی فیصلے کے بعد ازخود پورے صوبے میں ختم ہوگیا ہے کیونکہ کرونا کا کوئی وجود تھا ہی نہیں۔
آخر ہوا کیا ۔۔۔۔ ؟
دراصل کینیڈین شہری Patrick King نے کرونا کے نام پر زبردستی لاک ڈاون، ماسک اور ویکسینیشن کے خلاف ہزاروں افراد سمیت احتجاج کیا تھا۔۔۔ حکومت نے سرکاری ہدایات کی خلاف ورزی کرنے والوں کی پکڑ دھکر کی، جرمانے عائد کئے ۔۔۔ پیٹرک کو بھی صوبائی وزیر صحت نے خلاف ورزی کے الزام میں 1200 ڈالر کا جرمانہ عائد کیا۔
پیٹرک جسے کرونا کی اصلیت کا مکمل علم تھ، وہ جانتا تھا کہ یہ وباء جعلی ہے اسکا سرے سے کوئی وجود نہیں۔۔۔ اسے موقع مل گیا اور وہ کرونا کو بےنقاب کرنے عدالت پہنچ گیا۔
پیٹرک نے عدالت میں موقف اپنایا کہ جج صاحب جب کرونا کا کوئی وجود ہی نہیں ہے تو پھر کونسی پابندیاں ؟؟ پیٹرک نے حکومت کو چیلنج کردیا کہ پہلے سرکاری وزیر صحت عدالت میں ثابت کرکے دکھائیں کہ کرونا کا کوئی سائنسی وجود بھی ہے پھر میں جرمانہ بھی دوں گا اور ماسک بھی پہنوں گا۔
عدالت نے حکومتی وزیر صحت کو حکم دیا کہ آپ ثابت کریں کہ کرونا کا سائنسی وجود ہے۔۔۔ یہاں حکومت کے گلے میں ہڈی پھنس گئی۔
حکومتی وزیر نے ہار مانتے ہوئے اعتراف کیا کہ جج صاحب کرونا وائرس کا سائنسی طور پر کوئی وجود نہیں ہے کیونکہ ہم نے کبھی بھی اس وائرس کو آئیوسلیٹ ہی نہیں کیا۔ یعنی کرونا کو ثابت کرنے کا ہمارے پاس کوئی سائنسی ثبوت نہیں ہے۔
پیٹرک نے جواباً کہا : جج صاھب جب کرونا کا کوئی وجود ہی نہیں ہے تو اس کے بہانے لاک ڈاون، ماسک کی پابندی اور پھر زبردستی ویکسینیشن کیوں ؟؟
یاد رہے سائنس کی دنیا میں بغیر “آئیسولیٹ” (isolate) کیے، کسی بھی وائرس کی ویکسین بنانا سو فیصد ناممکن بات ہوتی ہے کیونکہ آئیسولیٹ کرنے کے بعد ہی وائرس کی اے بی سی کا پتا چلتا ہے کہ یہ کام کس طرح کام کرتا ہے اسکے بعد ہی اسی حساب سے اسکے خلاف دوائی تیار کی جاتی ہے۔ جبکہ موجودہ کرونا کو کبھی آئیسولیٹ ہی نہیں کیا گیا ہے اسکی جو ویکسین بنائی گئی ہیں وہ سب مفروضوں پر مبنی ہیں، بنانے والے خود ہی دعویدار ہیں کہ یہ محفوظ ہے اور اپنے محفوظ ہونے کے لیے انہوں نے نامعلوم ماہرین کے نام پر رپورٹس جاری کروائی رکھی ہیں جنہین کسی آزادانہ ادارے نے ایپرول ہی نہیں دیا۔ مختصرا یہ کہ سائنس کا بنیادی نقطہ وائرس کو آئیسولیٹ کرنے کی بات کو گول کرکے دنیا پر اقوام متحدہ کے زریعے سیاسی سائنس مسلط کی گئی ہے اور اسکی اڑ میں زبردستی سب کو ویکسین لگانے کا ایجنڈہ پورا کیا جارہا ہے۔
اس عدالتی کاروائی میں “سیاسی سائنس” بری طرح بےقاب ہوئی۔ ایسی سائنس کا “حقیقی سائنس” سے زرہ برابر بھی تعلق نہیں ہوتا۔
پیٹرک نے کہ : جج صاحب جب سائنسدانوں نے وائرس کو کبھی آئیسولیٹ ہی نہیں کیا تو ہم کس لیے ماسک پہنیں، کیوں اپنا روزگار بند کریں اور کس مقصد کے لیے ویکسین لگوائیں اور انہوں نے ویکسین بنائی کیسے جبکہ آئیسولیٹ تو انہوں نے کیا ہی نہیں وائرس کو ؟؟
دونوں طرف سے دلائل سننے کے بعد عدالت نے حکم دیا کہ حکومت وائرس کی موجودگی ثبوت کرنے میں ناکام ہوگئی ہے لہذہ پیٹرک کا جرمانہ ختم کرنے کے ساتھ صوبے سے کرونا کے نام پر لگائی گئی بےبنیاد پابندیاں بھی ختم کی جاتی ہیں۔
اسکے بعد کیندین صوبے البرٹا کی صوبائی حکومت نے سرکاری سطح پر بھی تمام کرونا پابندیاں ختم کردی ہیں۔
ایک بات تو طے ہے کہ اس خبر کے متعلق پاکستانی میڈیا، حکومت اور لفافی صحافی آپکو ہرگز آگاہ نہیں کریں گے، آپ سے چھپائیں گے کیونکہ وہ آپکو لاعلم رکھ کر ویکسینیشن کا ایجنڈہ پورا کرنے میں شیطان کی عالمی اسمبلی اقوام متحدہ کے ساتھ ہیں۔ لہذا یہ آپکا اور میرا فرص بنتا ہے کہ اس خبر کو سب تک پہنچائیں۔
میرے خیال سے پاکستان میں بھی کرونا کے خلاف قانونی جنگ ہونی چاہیے۔ سنجیدہ وکلاء حکومت کو عدالت میں چیلنج کریں کہ کرونا کی موجودگی ثبوت کرو ورنہ پابندیاں غیرقانونی ہیں۔۔ جب حکومت ثابت کرنے میں ناکام ہوجائے گی تو سارے کرونا ڈرامے ازخود زمین بوس ہوجائیں گے پھر کینڈین حکومت کی طرح یہاں بھی عوام کو سکھ کا سانس مل جائے گا۔
تحریر : یاسر رسول