افغانستان میں صرف لڑکوں کے اسکول کھولنے کی اجازت ملنے پر یونیسکو نے انتباہ جاری کر دیا۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق افغانستان میں طالبان کی حکومت کی جانب سے حکم دیا گیا کہ صرف لڑکوں اور مرد اساتذہ کو سیکنڈری تعلیم کے لیے اسکولوں میں جانے کی اجازت ہو گی۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی گولی کا نشانہ بننے والے لندن میں زیر تعلیم نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے برطانوی اخبار کے حوالے سے سامنے آنے والے اس فیصلے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ لڑکیوں پر افغانستان میں تعلیم کے دروازے بند نہ کیے جائیں۔
افغان طالبان کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ وہ 1990 کی دہائی کے مقابلے میں اپنی اس حکومت میں نرم رویہ اپنائیں گے جب طالبان کی سابقہ حکومت میں خواتین کو کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
تاہم طالبان کی عبوری حکومت کی وزارت برائے تعلیم کے اس حالیہ بیان سے خواتین کے حقوق کو بظاہر ایک بڑا دھچکا پہنچا ہے۔ اس بیان میں کہا گیا ہے،” سب مرد اساتذہ اور طلبہ اپنے تعلیمی اداروں میں جائیں۔” تاہم اس بیان میں خواتین کے حوالے سے کچھ نہیں واضح کیا گیا۔
اکثر سیکنڈری اسکولوں میں عام طور پر 13 سال سے لے کر 18 سال کی عمر کے طالب علم ہوتے ہیں۔ اس جنگ زدہ ملک میں زیادہ تر سیکنڈری اسکول لڑکے اور لڑکیوں کے لیے علیحدہ ہیں۔ اب افغانستان میں طالبان کی فتح کے بعد سے ایسے کئی اسکول بند ہیں۔