تاریخ گواہ ہے ، جب جب اس ملک میں مہنگائی کا جِن بے قابو ہوا ہے تب تب متوسط اور غریب طبقہ اس سے بُری طرح متاثر سے ہوا ہے، یہ جن ذیادہ تر غریبوں پر سوار رہتا ہے ، بھوک اور افلاس کے بادل ان کے سروں پر منڈلاتے رہتے ہیں۔ اور وہ خود اگر چلا بھی جائے تو اپنے ماتحت چھوڑ جاتا ہے جو دن رات ان کا سکون، چین، نیند اور اطمینان سب برباد کرنےکا کام جاری رکھتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ اس جِن کا تعلق کسی کوہِ قاف سے نہیں بلکہ موجودہ حکمران سے ہوتا ہے، جہاں بیٹھے اس کے سردار اسے حکم دیتے ہیں کہ اس نے کب کب کس جگہ اپنا آسیب چلانا ہے۔
مہنگائی کا یہ جن آج کل پھر بے قابو ہوا نظر آتا ہے اور پاکستان کے عوام اس جن کے آسیب میں بری طرح متاژر ہوچکےہیں۔۔ پاکستان ایک خوفناک صورتحال سے دوچار ہے۔ چند برسوں میں روز مرہ کے استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ تعلیم، ادویات ، کرائے، روز مرہ کی اشیاء غریب کی دسترس سے بالا تر ہوتی جارہی ہیں۔
عالمی سطح پر مہنگائی کا بول بالا ہے لیکن اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو ہمارا ملک پاکستان میں خوردنی اشیا مثلاً سبزی، دالیں، گوشت اور دیگر اشیا کی قیمتیں ساتویں آسمان پر پہنچ گئی ہیں ۔مہنگائی کی سطح عروج پر ہے جو غریب عوام سے کوسوں دور ہے۔ ہماراملک میں مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے معاشرے کا کون سا ایسا طبقہ ہے جو اس کمر توڑ مہنگائی سے براہ راست متاثر نہ ہوا ہو۔ غریب اور مزدور طبقے کی تو بات ہی مت پوچھیے ان کے یہاں تو چولہا جلنا بھی دشوار ہو گیا ہے۔
بھوک، افلاس، فاقہ کشی کا منظر، بھوک سے بلبلاتے بچے اس ناگفتہ صورتحال میں مزید کھانے کے تیل، پیٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ بھی عوام کی مشکلات و پریشانی میں اضافے کا باعث بنا ہوا ہے۔ پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں گذشتہ کئی ہفتوں سے مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جبکہ یکم نومبر سے ایک بار پھر پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات میں ہونے والے بڑے اضافے کے بارے میں سوچ سوچ کر ہی اکثر افراد کو خول اٹھ رہے ہیں۔
اب گاڑیاں چلانے والے پیٹرول اور ڈیزل بھرواتے وقت لوگ اپنی جیبوں کو بھی دیکھتے ہیں۔ یہ ہی نہیں بلکہ مہنگائی میں مزید اضافے کا امکان پورے مہینے کے بجٹ کو خراب کرنے کے لیے کافی ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ اب بھی صارفین کے لیے ’ریلیف‘ کا خیال رکھ رہی ہے۔
اگر حالیہ اضافے سے متعلق جاری ہونے والے اعلامیے پر غور کریں تو اس میں وزارت خزانہ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ‘حکومت نے عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی قیمتوں کے باعث پیدا ہونے والے دباؤ کا سامنا کیا اور صارفین کے لیے ‘زیادہ سے زیادہ ریلیف’ فراہم کرنے کی کوشش کی۔’
پاکستان میں تیل کی مصنوعات میں اضافے اور اس کے نتیجے میں بڑھتی مہنگائی پر تو پاکستان میں سوشل میڈیا پر آئے روز ٹرینڈز بنتے ہیں اور صارفین اس حوالے سے اپنی رائے اور غصے کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا ہو، کوئی گلی محلہ یا کوئی دکا ن ہر طرف آج کل یہی موضوع زیرِ بحث ہے۔ لیکن اس بحث میں کودنے سے پہلے اگر یہ دیکھا جائے کہ عالمی سطح پر اضافے کی وجوہات کے علاو، اس اضافے میں پاکستان کی حکومت کی کارکردگی کا بھی کوئی عمل دخل ہے؟ اوراگر ہے تو کس حد تک ہے؟
ماہرین کا اس بارے میں یہ کہنا ہے کہ گذشتہ برس کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے لیے تیل پیدا کرنے والے ممالک نے طلب کے مقابلے میں رسد کم کر دی ہے جس سے ان مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔‘
معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان اس وقت آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت سبسڈی نہیں دے پا رہا ہے جس کی وجہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا اثر براہ راست صارفین کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ان کے مطابق پاکستان نے اگرچہ ان مصنوعات پر ٹیکسز کم عائد کر رکھے ہیں مگر عالمی سطح پر بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے یہ اثر صارفین تک منتقل کیا جا رہا ہے۔
مہنگائی کا بڑھتا ہوا یہ طوفان کب تک جاری رہے گا اور غریب عوام کو اپنی لپیٹ میں رکھے گا اس کا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ایندھن کی قیمتیں بڑھنے سے روزمرہ کے استعمال کی دوسری چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں۔ پیداوارکی لاگت، ڈھلائی وغیرہ پر خرچ بڑھ جاتا ہے جس کاخمیازہ عام آدمی کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ایک طرف کمائی لگاتار کم ہوتی جارہی ہے تو دوسری طرف روزمرہ کے اخراجات اور کھانے پینے پر خرچ بڑھ رہاہے۔ عوام کا بچوں کی تعلیم سے جڑے درجنوں اخراجات سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے۔ ان حالات میں معیشت میں بہتری کا مژدہ سناکر مہنگائی کا بم پھوڑنا عوام کے ساتھ کھلا ظلم ہے ۔اس جِن کو قابو کرنے کےلئے بہتر حکمت ِ عمل کی اشد ضرورت ہے ورنہ مایوس عوام زندگی سے اکتا کر انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوجائینگے۔
سندس رانا