تھا وہ مانند خورشید رستے دکھا گیا
خودی کے فلسفے سے پردہ اٹھا گیا
قیامِ پاکستان کی جدوجہد اور مسلمانوں کی ایک الگ حیثیت منوانے کے لئے جن شخصیات نے اپنا اہم کردار ادا کیا ان میں سے ایک شاعرِ مشرق محمد علامہ اقبال بھی ہیں جن کا نام پاکستان کی تاریخ کے پنّوں میں سنہری حروف میں لکھا جاتا ہےشاعر مشرق علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے، ماں باپ نے آپ کا نام محمد اقبال رکھا۔انہوں نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں ہی حاصل کی اور مشن ہائی اسکول سے میٹرک اور سیالکوٹ کے کالج سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔شعر و شاعری کا شوق بھی آپ کو یہیں پیدا ہوا اور اس شوق کو فروغ دینے میں آپ کے ابتدائی استاد مولوی میر حسن کا بڑا دخل تھا۔۔بلاشبہ علامہ اقبال عظیم المرتبت شاعر ہیں۔
لاہور اورینٹل کالج میں 1893 سے لے کر 1897 تک سرایڈون آرنلڈ کے زیرسایہ تعلیم حاصل کرنے کے دوران اقبال نے پہلی مرتبہ جدید فکر کا مطالعہ کیا تھا۔ 1899 میں یہاں سے ایم ۔ اے فلسفہ کیا، ساتھ ہی عربی شاعری پڑھانا شروع کی اور معاشرتی و معاشی مسائل پر قلم اٹھایا۔
یونیورسٹی آف کیمبرج سے لاء کرنے کے لئے اقبال نے 1905 میں ہندوستان چھوڑا لیکن فلسفے کی پڑھائی نے ان کے دماغ کو جکڑ لیا جس نے ان کی سوچ پر غلبہ کر کے چیزوں کو الگ زاوئیے سے دیکھنا شروع کردیا ۔ٹرینٹی کالج میں ہیگل اور کانٹ کا مطالعہ کرنے کے بعد وہ یورپی فلسفہ کے بنیادی رجحانات سے واقف ہوگئے۔ فلسفہ میں دلچسپی نے انہیں1907 میں ہائیڈ لبرگ اور میونخ پہنچایا جہاں انھوں نے ایران کے فلسفے پرایک کتاب بھی لکھی جس پر جرمنی کی یونیورسٹی نے ان کو پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا۔ جرمنی کے بعد لندن سے بیریسٹری کا امتحان پاس کیا ۔ انھوں نے یورپ کا تجزیہ بھی بھرپور انداز سے کیا جس میں کئی خوبیاں اور کئی خامیاں بھی تھیں لیکن انھوں نے زیادہ تر وہاں خوبصورت دکھنے والے لوگوں کو دل سے کھوکھلا پایا۔
وطن واپس آکر اردو زبان میں انھوں نے کئی نظمیں لکھیں لیکن فارسی کی جانب بھی ان کا رجحان بڑھنے لگا۔آپ کے مطابق فارسی کی زبان شاعری کے لئے بہترین زبان تھی اور ساری دنیا کے مسلمانوں کےلئے کلام قلمبند کرنے کےلئے انھوں نے فارسی کا انتخاب کیا۔
اقبال کو یورپ سے آئے کچھ عرصہ گزرا تھا کہ اطالیہ نے طرابلس کو تُرکی سے چھین لیا ، اس کے بعد تُرکی کی عیسائی ریاستوں نے بھی تُرکی سے بغاوت کا اعلان کردیا، ان واقعات کا ان پر گہرا اثر پڑا۔ وہ ہندوستان میں موجود مسلمانوں کی حالت کی عجہ سے بھی کافی افسردہ تھے۔ اسی دوران انھوں نے اپنی نظم “شکوہ” لکھی اور جب انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسے میں سامعین کے آگے اس نظم کو پڑھا تو ہوا میں لوگوں کی سسکیوں کی آہیں بلند ہونے لگیں۔ یہ ان کی تمام نظموں میں سے ایک مشہور نظم ہے اور اسی شکوہ نظم کا جواب بھی “جوابِ شکوہ” کے نام سے خودی پیش کیا۔
1914 میں پہلی جنگِ عظیم کا آغاز ہوا ، ان دنوں ان کی حالت ایسی تھی جسے وہ اردو زبان میں بیان نہیں کر پارہے تھے ۔ فارسی میں انھوں نے “اسرارِ خودی ” اور “رموزے بے خودی ” لکھ کر حضرتِ انسان کے معیار کو بلند و بالا کردیا۔انھوں نے مسلمانوں کی کا ہلی اور اور غلامی کو خودی کے تصور میں بدلنے کی کوشش کی تاکہ مسلمان اپنی اصلی حقیقت کو پہچانیں اور اپنے لئے آواز بلند کریں۔
انہوں نے برطانوی راج کے محکوم ہندوستانی مسلمانوں کی حالت زار کو عیاں کرنے میں گہری دلچسپی لی، یورپ روانگی سے قبل اقبال ایک آزاد خیال قوم پرست اور انڈین نیشنل کانگریس کے ہمدرد تھے تاہم 1911 میں تنسیخ تقسیم بنگال ہوگئی۔ پھر ان کا رجحان شاعری میں ہندوستان کے ساتھ مسلمانوں کی طرف بہت نمایاں نظر آتا ہے، ان کا یہ کلام آج تک تمام مسلمانوں کی شان کی پہچان بنتا ہے۔
چین و عرب ہماراہندوستان ہمارا
مسلم ہیں ہم ، سارا جہاں ہمارا
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
1926 میں میوہ لاہور کے حلقے سے کونسل کی ممبری کےلئے کھڑے ہوکر کامیاب قرار پائے۔ 1928 میں انھیں مدراس سے لیکچر دینے کا بلاوہ آیا، جہاں ان کا بہترین استقبال ہوا، اس کے بعد وہ میسور اور پھر حیدرآباد روانہ ہوئے ۔ 1930 میں مسلمانوں کی پرانی انجمن مسلم لیگ نے الہ آباد میں جلسہ کیا، اس جلسے میں صدر کی حیثیت سے شرکت کی۔یہاں انھوں نے ایک تاریخی تقریر کی اور اس تقریر میں انھوں نے ایک الگ ملک کی تشکیل کے بارے میں اشارہ دیا۔
اپنے آخری سالوں میں وہ مختلف مقامات پر رہے ، کچھ عرصہ بھائی دروازہ میں رہے، پھر انار کلی میں نو دس سال قیام کیا۔ انتقال سے ۳ سال پہلے انھوں نے میوہ روڈ پر اپنی خاص کوٹھی بنوائی جس کا نام ” جاوید منزل ” رکھا۔
لاہور میں شیخ محمد اقبال کہلانے والے جب ولایت سے واپس آئے تو ڈاکٹر اقبال بن کر آئے ، حکومت ِ ہند نے انھیں “سر” کا خطاب دیا۔قوم نے انھیں “علامہ اقبال” کے نام سے مشہور ہوئے ۔ ان تمام خطابات کے باوجود وہ ایک سیدھے سادھے اور درویش انسان تھے۔ وہ جو تھے اس پر انھیں فخر تھا۔
زندگی کے آخری حصے میں انھوں نے اردو پر توجہ دی ، بال جبریل اور ضربِ کلیم ان کے آپ کے آخری دور کے کلام ہیں۔ انھوں نے اپنی تمام کتابوں میں مسلمانوں کو مخاطب کیا۔ “جاوید نامہ” اور “بال جبریل” میں انھوں نے دنیا بھر کے غریبوں کو اپنے پیغامات دئیے ۔
1935 میں ان کی بیگم کا انتقال ہوا جس کا ان پر بہت گہرا اثر ہوا ۔انہوں نے دسمبر 1937 میں شدید بیماری کے عالم میں یہ رباعی کہی:
سرود رفتہ باز آید کہ ناید؟
نسیمی از حجاز آید کہ ناید؟
سرآمد روزگار این فقیری
دگر داناے راز آید کہ ناید؟
وفات سے تین چار روز قبل حالت بہت خراب ہوگئی ، ڈاکٹرز نے دل کی طرف جانے والی رگ کے پھٹنے کا خدشہ ظاہر کیا اور آخر کار 21اپریل 1938 کو 65 سال کی عمر میں رضائے الہٰی سے انتقال کر گئے۔اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا، ان کی کئی کتابوں کے انگریزی، جرمنی، فرانسیسی، چینی، جاپانی اور دوسری زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں اور اس دور میں مسلم امہ میں موجود مایوسی کے باوجود وہ روشن مستقبل کی توقعات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے تھے۔
ہر مسلماں رگِ باطل کے لیے نشتر تھا
اُس کے آئینۂ ہستی میں عمل جوہر تھا
جو بھروسا تھا اُسے قوّتِ بازو پر تھا
ہے تمھیں موت کا ڈر، اُس کو خدا کا ڈر تھا
سندس رانا، کراچی