ہمالیہ میں پائی جانے والی ‘کیٹرپلر فنگس’ کینسر کے خلاف موثر

صحت کے لئے فائدہ مند فنگس (پھپھوندی) سینکڑوں برس سے طبی مقاصد کے لیے استعمال ہورہی ہے، اب ہمالیائی خطوں میں پائے جانے والی جڑی بوٹی سے کیموتھراپی کی ایک نئی دوا کشید کی گئی ہے۔

یہ کارنامہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ‘نیوکانا’ نامی بائیوفارماسیوٹیکل کمپنی کے تعاون سے سرانجام دیا، انہوں نے فنگس کے زریعے ایک کشید مرکب تیار کیا ہے جسے ‘ کورڈائی سیپن’ کا نام دیا گیا ہے۔

اگرچہ یہ اندرونی سوزش اور سرطان کے لیے پہلے بھی استعمال ہوتا رہا ہے، چین میں بھی کئی بیماریوں کے علاج میں اس کا استعمال جاری ہے، لیکن اس کی افادیت اتنی زیادہ نہیں رہتی۔

کورڈائی سیپن نامی کیمیکل میں خرابی یہ ہے کہ خون میں جاکر اس کے شیرازہ بکھرنے سے افادیت کم ہوجاتی ہے، ایک خامرہ (انزائم) اے ڈی اے اسے توڑ دیتا ہے، لیکن اس کے باوجود اس کا کچھ حصہ بچا رہتا ہے جسے ایک نیوکلیو سائڈ ٹرانسپورٹر کی بدولت سرطانی خلیات تک پہنچاتا ہے۔ خلیے میں پہنچ کر یہ کیمیکل اینٹی کینسر تھری ڈی اے ٹی پی میٹابولائٹس میں ڈھل جاتا ہے، اس مرحلے پر فنگس کارآمد تو تھی مگر اس کی افادیت کم تھی۔

کورڈائی سیپِن کا اثر بڑھانے کے لیے ماہرین نے ایک نئی ٹیکنالوجی پیش کی جسے ’پروٹائیڈ‘ ٹیکنالوجی کا نام دیا گیا ہے۔ اس مرکب میں بعض کیمیکل شامل کرکے اسے مضبوط بنایا جاتا ہے جس کے بعد کورڈائی سیپِن خون کے بہاؤ میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوتا۔ اس طرح کیمیکل سیدھا کینسر کے خلیات پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اس طرح سرطانی خلیات پر گہرا وار ہوتا ہے کیونکہ اس موقع پر کیمیکل کی افادیت بہت بڑھ جاتی ہے۔

کورڈائی سیپِن کی اس تبدیل شدہ قسم کو این یو سی 7738 کا نام دیا گیا ہے، جب اس پر تجربات کئے گئے تو معلوم ہوا کہ اب اس دوا کی تاثیر کم سے کم 40 گنا تک بڑھ چکی ہے۔ فیز ون ٹرائل ابھی جاری ہے جن سے امید افزا نتائج حاصل ہوئے، بہت جلد طبی ٹرائل کا دوسرا مرحلہ شروع کیا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں