کراچی: آرٹس کونسل کراچی میں 14 ویں عالمی اردو کانفرنس کا آغاز ہوگیا ہے ۔ بڑی تعداد میں ملکی وغیر ملکی مصنف ادیب اور دانشور حصہ لے رہے ہیں۔ آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ نے تمام شرکا کا خیر مقدم کرتے ہوئے استقبالیہ خطاب کیا۔
عالمی اُردو کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کی صدارت زہرا نگاہ، اسد محمد خان، کشور ناہید، منیزہ ہاشمی، نور الہدیٰ شاہ، یوسف خشک، منور سعید اور بھارت سے آن لائن گوپی چند نارنگ نے کی جبکہ محقق اور ماہرین تعلیم ڈاکٹر جعفر احمد اور ماہر لسانیات ڈاکٹر طارق رحمن نے کلیدی مقالے پیش کیے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلٰی سندھ سید مرادعلی شاہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور اردو کانفرنس ہمیشہ ساتھ چلتے ہیں ادب کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ وزیر اعلی سندھ نے مزید کہا ” ہمیں دانشوروں کے ذریعے جنگ میں حصہ لینا ہوگا تمام ٹی وی چینلز پر پرائم ٹائم میں سیاسی لوگ ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ۔ ادیبوں اور دانشوروں کی بات صدیوں تک اثر رکھتی ہے ملک کے موجودہ حالات میں قلم کا ساتھ دینا ہوگا۔‘‘
ایڈمنسٹریٹر کراچی و ترجمان سندھ حکومت بیرسٹر مرتضی وہاب نے اپنے خطاب میں کہا کہ زبان و تہذیب معاشرے کا اہم حصہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا،” بدقسمتی سے ہم نے اس پر توجہ نہیں دی ہمیں اپنی زبان اور تہذیب کو اجاگر کرنا ہوگا پاکستان میں انگریزی بولنے کی کوششوں میں ہم تباہ ہوگئے۔ ہمیں نہ ادب نہ اردو اچھی آتی ہے اس طرح کی کانفرنس سے اردو اور ادب کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔‘‘
آرٹس کونسل آف پاکستان کے صدر احمد شاہ نے اپنے استقبالیہ خطبے میں کہا کہ جب کسی قوم کی ثقافت ختم ہوجائے تو وہ معاشرہ مردہ ہوجاتا ہے۔ احمد شاہ کے بقول،” ہم اپنی تہذیب کے بل غرض سفیر ہیں۔ مہینے بھر سے اس کانفرنس کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ ادب وثقافت اور تہذیب سے محبت کرنیوالوں کی یہ عید ہے تہذیب و ثقافت کے دشمنوں سے ادب کے ذریعے لڑنا ہے۔
بھارت سے آن لائن خطاب کرتے ہوئے گوپی چند نارنگ نے کہا کہ ان کی پیدائش پاکستان کی ہے اور ان کی زبان بلوچی اور سرائیکی ہے جبکہ انہیں پشتو بھی آتی ہے، انہوں نے کہاکہ مجھے اُردو کا جادو اورجامع مسجد دہلی کی سڑھیوں کا فیضان بعد میں نصیب ہوا مگر اُردو میرے ڈی این اے میں شامل ہے۔
انہوں نے کہاکہ اردو زبان میرے لیے راز وں بھرا بستہ ہے اور یہ زبان میرے وجود کا حصہ بنتی چلی گئی ہے، انہوں نے کہاکہ یہ خطہ زبان کے معاملے میں بہت زرخیز ہے اتنی زیادہ زبانیں کہیں اور نہیں بولی جاتیں جو اس خطے میں بولی جاتی ہے، انہوں نے کہاکہ اردو جیسی زبان اور شیرینی جس میں عربی اور فارسی کی لطافت اور شائستگی کے ساتھ ساتھ ہماری مٹی کی خوشبو بھی موجود ہے اُردو زبان میں ہماری دھرتی کی آوازیں سنائی دیتی ہیں، عربی اور فارسی کے لفظ اُردو زبان میں جس طرح سے گھل مل گئے ہیں اس سے اُردو زبان کی خوبصورتی مزید بڑھ گئی ہے۔
ماہر تعلیم اور محقق ڈاکٹر جعفر احمد نے کہاکہ اُردو اور تہذیب کے باہمی تعلق کی صورت حال نے ادب کی پرورش کی ہے اور اس سے ہمار اکلچر بھی بہتر ہوا ہے، انہوں نے کہاکہ اس وقت کلچر کی وسعت کم ہو رہی ہے، ہم اپنے کلچر کا جشن ایسے حالات میں منا رہے ہیں جو ہمارے لیے موافق نہیں۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم ان وجوہات پر بھی نظر رکھیں کہ جن کیاریوں میں ادب کے پھول کھلتے ہیں اس میں عدم برداشت کا زہریلا پانی کس تیزی سے چھوڑا جارہا ہے۔
صدر نشیں زہرا نگاہ نے اس امید کا اظہار کیا کہ اگر آج حالات شعر وسخن اور تہذیب و تمدن کے لیے سازگار نہیں ہیں تو اس طرح کی کانفرنسز اور اہل قلم کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کی بدولت وہ وقت بھی آئے گا کہ جب معاشرہ بدلے گا ،سماج کروٹ لے گا اور ہم دیکھیں گے کہ عدم برداشت کی جگہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے جذبات پیدا ہوچکے ہوں گے۔
عالمی اردو کانفرنس چار روز تک جاری رہے گی۔