ڈالر کی قیمت 169 روپے تک جانے سے اسٹیل بھی مہنگا ہوا ہے جس کے بعد اب خیال کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں موجود موٹرسائیکل بنانے والی کمپنیاں قیمتوں میں مزید اضافہ کریں گی۔
کیونکہ اپما (ایسوسی ایشن آف پاکستان موٹرسائیکل اسمبلرز کے مطابق کمپنیاں موٹرسائیکل ڈیلرز کو موٹرسائیکلیں فروخت نہیں کر رہیں۔اے پی ایم اے کے چیئرپرسن صابر شیخ کے مطابق کمپنیاں یہ چاہتی ہیں کہ ڈالر اور اسٹیل کی قیمتوں کے تناظر میں قیمتیں مزید بڑھا دی جائیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے خیال کیا جا رہا ہے کہ یونائیٹڈ آٹوموبائلز اور روڈ پرنس یکم اکتوبر سے اپنی موٹر سائیکلوں کی قیمتوں میں بالترتیب 5 ہزار اور 3 ہزار روپے تک اضافہ کرینگی۔انہوں نے بتایا کہ کئی ڈیلروں نے موٹرسائیکلوں کی دستیابی کا پتہ لگانے کیلئے رابطہ کیا تاہم مارکیٹ میں موٹر سائیکلیں آسانی سے دستیاب نہیں، جس کی ممکنہ وجہ تصور کی جا رہی ہے کہ اگلے ماہ موٹرسائیکلوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔
چونکہ اسٹیل مہنگا اور ڈالر 169روپے کے قریب جا پہنچا ہے اس کے باعث موٹرسائیکلوں کی قیتموں میں اضافہ ممکن ہے۔یہ تمام عوامل کے باعث کمپنیز تناؤ کا شکار ہیں جس صورتحال سے نکلنے کیلئے موٹرسائیکلوں کی قیمتوں میں اضافہ ممکن ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کا آٹو سیکٹر بشمول کار اور موٹرسائیکل دونوں حصوں کا انحصار درآمد شدہ پرزوں پر ہے۔ درآمد شدہ اشیاء ڈالر کے موجودہ ریٹ کےلیے انتہائی حساس ہیں۔
گزشتہ برس کرونا وائرس وبائی امراض کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے بعد مارکیٹیں کھلنے کے بعد موٹرسائیکلوں کی مانگ میں اضافہ ہوا تھا، کمپنیاں زیادہ مانگ پوری کرنے میں ناکام ہورہی تھیں جس کی وجہ سے موٹرسائیکلیں کم اور خریدار زیادہ تھے۔ صابر شیخ کے مطابق موٹرسائیکل بنانے والی کمپنیز کو مالی خسارے کا سامنا نہیں ہے کیونکہ موٹرسائیکلوں کی قیمتیں پہلے ہی زیادہ ہیں۔