مر بھی جاؤں تو کہاں، لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، میرے ہونے کی گواہی دیں گے
اپنی شاعری سے احساسات کو ذندہ کرنے والی شاعرہ پروین شاکر کی آج 27ویں برسی منائی جارہی ہے، جن کے گزر جانے بعد بھی سخن کی محفلیں ان کی شاعری سے آباد ہیں۔
پروین شاکر 24 نومبر 1954 کو کراچی میں سید شاکر حسن کے گھر پیدا ہوئیں ان کا خانوادہ صاحبان علم کا خانوادہ تھا ان کے خاندان میں کئی نامور شعرا اور ادبا پیدا ہوئے۔ جن میں بہار حسین آبادی کی شخصیت بہت بلند و بالا ہے آپ کے نانا حسن عسکری اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے انہوں نے بچپن میں پروین کو کئی شعرا کے کلام سے روشناس کروایا۔
پروین ایک ہونہار طالبہ تھیں۔ دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتی رہیں اور مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں، تعلیم مکمل کرنے کے بعد نو برس شعبہ تدریس سے منسلک رہیں اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔
پروین شاکرنے انگریزی ادب اور زبان دانی میں گریجویشن کیا اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔
سرکاری ملازمت شروع کرنے سے پہلے 1986ء میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ، سی۔ بی۔ آر اسلام آباد میں سیکرٹری دوم کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے لگیں۔1990ء میں ٹرینٹی کالج جو امریکا سے تعلق رکھتا تھا سے تعلیم حاصل کی اور 1991ء میں ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ پروین کی شادی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی جس سے بعد میں طلاق لے لی۔
پروین شاکر کو اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم عرصے میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوپاتی ہے شاعری میں آپ کو احمد ندیم قاسمی صاحب کی سرپرستی حاصل رہی۔ آپ کا بیشتر کلام اُن کے رسالے فنون میں شائع ہوتا رہا۔
شاعری کی دنیا میں انہیں احمد ندیم قاسم جیسے ادیب کی سرپرستی حاصل رہی،کم عمری میں شاعری کا آغازکرنے والی پروین شاکرکوان کے پہلے شعری مجموعے’’خوشبو‘‘پرآدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا پروین شاکر کی معروف کتابوں میں خوشبو، صد برگ، خود کلامی، انکار اور ماہ تمام شامل ہیں۔
پروین شاکر کے ساتھ دلچسپ اتفاق یہ ہوا کہ 1982 میں جب وہ سینٹرل سپیرئیر سروسزز(سی ایس ایس ) کے امتحان میں بیٹھیں تو اردو کے پرچے میں ایک سوال ان کی شاعری سے ہی متعلق تھا۔
پروین شاکرکی شاعری ایک نسل کی نمائندگی کرتی ہے کیونکہ ان کی شاعری کا مرکزی نکتہ عورت ہے پروین شاکرنے زندگی کے تلخ و شیریں تجربات کو نہایت خوبصورتی سے لفظوں کے قالب میں ڈھالا بلقیس خانم سے لے کرشہنشاہ غزل مہدی حسن تک پروین شاکرکا کلام بہت سے گلوکاروں نے گایا جوبہت مقبول ہوا۔
اپنی شاعری سے ادبی دنیا میں نام بنانے والی شاعرہ 26 دسمبر 1994 میں اسلام آباد میں ایک ٹریفک حادثے میں انتقال کر گئیں لیکن انسانی جذبات و احساسات کو لفظوں میں پرونے والی شاعرہ آج بھی اہل ذوق کے دلوں میں زندہ ہے۔