وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے کیوں استعفیٰ دیا؟ اس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کو ٹیم سے باہر کرنے کا فیصلہ پہلے ہی کر لیا تھا۔
پنجاب حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے ایک ماہ قبل انفارمیشن کے سینیئر افسران کے اجلاس میں فردوس عاشق اعوان کو مدعو نہیں کیا تھا۔
اجلاس کے دوران انہیں پیغام بھیجا گیا کہ اب ان کی ضرورت نہیں، وہ اپنے دفتر 5 کلب میں بیٹھیں اور ایوان وزیر اعلیٰ کے معاملات سے دور رہیں۔
ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ نے 2 اگست کو اسلام آباد میں وزیراعظم سے فردوس عاشق اعوان کو ہٹانےکی منظوری لی۔ فردوس عاشق اعوان کے ساتھ طے پایا کہ وہ 9 اگست کو ایم پی اے احسن بریار کے ساتھ پریس کانفرنس کے بعد استعفیٰ دیں گی تاہم ایوان وزیراعلیٰ سے 6 اگست کو پیغام آیا کہ وہ فوری استعفیٰ دے دیں ورنہ انہیں عہدے سے ہٹا دیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب سے فردوس عاشق اعوان 6 اگست کو ملیں لیکن یہ ملاقات ناکام رہی۔ وزیراعلیٰ کو تحفظات تھے کہ فردوس عاشق نے پنجاب میں ہونے والے کام کو میڈیا پر اجاگر نہیں کیا اور وہ خود کو طاقتور بنا رہی ہیں۔
وزیراعلیٰ کو شبہ تھا کہ فردوس عاشق وزیراعظم کو پنجاب کی منفی باتیں پہنچاتی تھیں۔ وزیراعظم کی موجودگی میں متعدد بار فردوس عاشق اعوان پنجاب کے کچھ معاملات سامنے لائیں۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم کی موجودگی میں فردوس عاشق نے کہا کہ پنجاب میں بیوروکریٹک مارشل لاء لگا ہوا ہے، بیوروکریٹ کسی وزیر کو خاطر میں نہیں لاتے، اس لیے وہ دلچسپی نہیں لیتے۔
فردوس عاشق اعوان نے وزیراعظم کے سامنے رمضان کے دوران چینی کے حصول کے لیے لوگوں کے لائنوں میں لگنے پر انتظامیہ کی خامیاں بھی بتائیں۔
دوسری جانب فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ بزدار وزیراعظم کےنامزدکردہ ہیں،کسی طرح بھی انہیں نیچا نہیں دکھا سکتی۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے بہت کام کیا، وزیراعلیٰ نے مجھے ہی نہیں اپنی سوشل میڈیا ٹیم وغیرہ کو بھی فارغ کرنے کی بات کی تھی، وزیراعظم کی ٹیم کاحصہ ہوں، وہ جہاں کام لینا چاہیں حاضرہوں۔
Load/Hide Comments