ریاست کی ملکیت سمجھے جانے والے توشہ خانہ کے تحائف صرف سیاسی اور بیوروکریسی کی اشرافیہ (سویلین اور ملٹری) اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں میں فروخت کیلئے دستیاب ہوتے ہیں۔
معاشرے کے ان انتہائی با اثر افراد کو ان کے غیر ملکی دوروں پر ملنے والے یا غیر ملکی وفود سے ملنے والے تحائف انتہائی سستے داموں خریدنے دیے جاتے ہیں یا پھر وفاقی حکومت کے ملازمین اور مسلح افواج کے افسران میں ان تحائف کی نیلامی کی جاتی ہے۔
اگر کوئی تحفہ اس اشرافیہ کی خریداری سے رہ جائے تو وہ عوام میں فروخت کیلئے پیش کیا جاتا ہے۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ سرکاری پالیسی یہ ہے کہ ہر ملنے والے تحفے کے متعلق حکومت کو مطلع کیا جائے اور اسے توشہ خانے میں جمع کرا دیا جائے لیکن اس پالیسی کے باوجود ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن میں ملنے والے تحائف کے متعلق آگاہ کیا جاتا ہے اور نہ ہی توشہ خانے میں جمع کرانے کیلئے حکومت کو دیے جاتے ہیں۔
دسمبر 2018ء میں تشکیل دی گئی نئی پالیسی کے مطابق 30 ہزار روپے مالیت سے زائد کے تحائف کی پچاس فیصد قیمت ادا کرکے وہ تحفہ اپنے پاس رکھا جا سکتا ہے تاہم تیس ہزار روپے تک کے تحفے کو استثنیٰ حاصل ہے۔ یہ استثنیٰ ایسے تحائف کیلئے نہیں ہے جو نادر نوعیت کے یا تاریخی لحاظ سے اہمیت کے حامل ہوں۔
ایسے تمام تحائف باقاعدہ کیٹلاگ کیے جائیں گے اور انہیں سرکاری عمارات میں نمایاں طور پر نمائش کیلئے پیش کیا جائے گا۔ تیس ہزار روپے تک مالیت کے تحائف کو وصول کنندہ مفت اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ حکومتی عہدیدار یا سرکاری ملازمین ماسوائے صدر مملکت اور وزیر اعظم پر پابندی ہے کہ وہ اپنے لیے یا اپنے اہل خانہ کیلئے ملک میں رہتے ہوئے پاکستان میں تعینات سفارت کاروں، قونصلرز یا دیگر غیر ملکی سرکاری نمائندوں اور سرکاری ادارے یا نجی شخص یا کمپنی سے تحائف نہیں لے سکتے۔
تاہم، اگر ایسی صورتحال پیش آئے جہاں تحفے سے انکار نہیں کیا جا سکے وہاں تحفہ وصول کرکے اسے توشہ خانے میں جمع کرانا ہوگا۔ توشہ خانے میں جمع کرائے گئے تحائف جو نمائش کیلئے موزوں ہوں، انہیں باقاعدگی کے ساتھ کیٹلاگ کرکے سرکاری عمارتوں یا اداروں میں یا پھر سربراہِ مملکت اور سربراہِ حکومت کی رہائش گاہ پر نمایاں طور پر عوام کو دکھانے کیلئے رکھا جائے۔
ایسی اشیاء کا ریکارڈ باقاعدگی کے ساتھ توشہ خانے کے رجسٹر میں کرنا ہوگا اور ساتھ ہی متعلقہ دفتر یا ادارے کے اسٹاک رجسٹر میں بھی لکھنا ہوگا۔ ایسی اشیاء جن کی نمائش نہیں کی جا سکتی انہیں وقتاً فوقتاً کابینہ ڈویژن فروخت کیلئے پیش کرے گی۔
یہ فروخت ایک سال میں دو مرتبہ کی جائے گی۔ جو اشیاء فروخت کرنا ہوں ان کی فہرست وفاقی حکومت کے تمام ملازمین اور مسلح افواج کے تمام افسران میں تقسیم کرنا ہوگی۔ ایسی اشیاء جو مسلسل دو نیلامیوں میں بھی کوئی سرکاری ملازم نہ خریدے اُسے عوام کو سر بمہر بولیوں کے ذریعے فروخت کیا جائے گا۔
نادر اشیاء اور گاڑیاں وصول کنندہ کو خریدنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ نادر اشیاء میوزیم میں یا پھر سرکاری عمارتوں میں نمائش کیلئے رکھی جائیں گی جبکہ تحائف میں ملنے والی گاڑیاں کابینہ ڈویژن کے گاڑیوں کے پوُل میں شامل کر دی جائیں گی۔
تحائف کی قبولیت اور ان کی فروخت کی پالیسی کا اطلاق ان سب پر ہوگا: صدر مملکت، وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی، چیف جسٹس سپریم کورٹ، صوبائی گورنرز، وفاقی کابینہ کے ارکان، اٹارنی جنرل آف پاکستان، وزرائے مملکت، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی اسپیکر نیشنل اسمبلی، ایسے عہدیدار جنہیں وزیر کادرجہ حاصل ہو۔
صوبائی کابینہ کے ارکان، سپریم کورٹ کے ججز، ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان، ارکان پارلیمنٹ، منتخب نمائندوں اور سرکاری ملازمین (سویلین اور ملٹری) اور ساتھ ہی سرکاری کنٹرولڈ کارپوریشنز، خودمختار اور نیم خودمختار اداروں کے عہدیداروں اور ان کے اہل خانہ اور زیر کفالت افراد، صوبائی حکومتوں کے ارکان، دیگر اداروں کے سرکاری ملازمین جو غیر ملکی دوروں پر سرکاری حیثیت میں جاتے ہیں۔
اس بات کی تفصیلات نہیں بتائی جا رہیں کہ حکومت میں کس نے کتنے تحائف سستے داموں میں خرید کر اپنے پاس رکھ لیے لیکن کابینہ ڈویژن نے گزشتہ سال منتخب اشرافیہ کیلئے ایک خط جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ: ’یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ توشہ خانہ میں موجود کئی اشیاء وفاقی حکومت کے افسران اور مسلح افواج کے افسران میں فروخت کیلئے پیش کی جا رہی ہیں اور اس کیلئے سہر بمہر بولیاں منگوائی جائیں گی اور آکشن ہوگا۔‘ جب میڈیا میں یہ معاملہ آیا تو اسے لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ عدالت نے وفاقی حکومت کو حکم دیا تھا کہ نیلامی روکی جائے۔
درخواست گزار نے وہ تحائف بتائے تھے جو صدر مملکت، وزیر اعظم اور دیگر وزراء کو مختلف سربراہانِ مملکت نے دیے تھے اور انہیں توشہ خانے میں رکھا گیا تھا جنہیں کسی بھی قانونی طریقہ کار کے بغیر سرکاری افسران کو فروخت کیا جا ر ہا تھا۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ نیلامی کا عمل آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے۔