پاکستان میں نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیموں کے دورے کی منسوخ ہونے کے بعد کافی غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ نیوز لینڈ اور انگلینڈ نے سیکیورٹی کا بہانہ بنا کر دورہ پاکستان منسوخ کرکے پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیائے کرکٹ کے شائقین کو بھی افسردہ کر دیا، پاکستان کے شائقین بے حد خوش تھےکہ نیوزی لینڈکی ٹیم 2003کے بعد پاکستان میں کھیلنے آئی تھی لیکن عین میچ سے چند گھنٹے قبل کھلاڑیوں کو سیکیورٹی تھریٹ بہانہ بنا کر نو دو گیارہ ہوگئی۔ نیوزی لینڈ کی دیکھا دیکھی انگلینڈ نے بھی اپنا دورہ منسوخ کر دیا اور پاکستان میں کرکٹ کو بہت نقصان پہنچایا، کیونکہ یہ مایوس کن صورتحال کسی کے وہم و گما ن میں بھی نہیں تھی۔ اگردورہ کرنے سے پہلے ہی منسوخ کر دیا جاتا تو شائد پاکستان کی ساکھ کو اس قدر نقصان نہ پہنچتا۔ عین ٹاس کے وقت سیکیورٹی کا بہانہ بنا کر ٹیم کو واپس بلا لینا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔
پی سی بی چیئرمین – رمیز راجہ نے ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک اور آئی سی سی کو خبردار کیا کہ اب اپنے فیصلے کسی اور کے ہاتھ میں دینے کے بجائے خود کریں گے۔ رمیز راجہ کا کہنا تھا کہ ہوم سیریز نیوٹرل وینیو پر کھیلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ کے میچ کا بائیکاٹ کریں گے۔ رمیز راجہ نے تمام فیصلے آئی سی سی کی میٹنگ میں اٹھانے کا عندیہ بھی دیا ، کیونکہ یہ دورہ منسوخ کر کے پاکستان سمیت دنیا بھر کے شائقین کے ساتھ ایک گھناؤنا کھیل کھیلا گیاہے۔رمیز راجہ نے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے انکار کے بعد ہم خیال بورڈز جنوبی افریقہ،بنگلہ دیش،سری لنکا اور افغانستان پر مشتمل بلاک بنانے کا بھی عندیہ دیااور کہا کہ ہمیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہونا، ایک ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ نیوزی لینڈ کادورہ منسوخ ہونے کے تمام معاملات آئی سی سی میں اٹھائیں گے کہ ایسی کون سی تھریٹ تھی کہ وہ آخری لمحات میں بھاگ گئے اور کروڑوں شائقین کے جذبات کی قدر نہیں کی گئی۔
رمیز راجہ نے کہا کہ ہمارے لئے سبق یہ ہے کہ آئندہ ہمیں وعدہ خلاف ٹیموں کو پہچاننا ہے اور یہ دیکھنا ہے کہ پریشر میں ہمارے ساتھ کون کھڑا رہتا ہے اور کون نہیں۔ اب تو مغربی میڈیا بھی انگلش کرکٹ بورڈ پر تنقید کر رہا ہے۔پاکستان میں برطانوی سفیر کرسچن ٹرنر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انگلش کرکٹ بورڈ نے سیریز منسوخ کر کے پاکستان کی سکیورٹی اور قومی نٹیلی جنس اداروں کی توہین کی گئی ہے، جو کہ نیوزی لینڈ جیسے ذمہ دار ملک کو زیب نہیں دیتا۔ٹرنر نے پاکستان میں سکیورٹی کے معاملات پر اطمینان کا اظہار بھی کیا اور پاکستان میں کرکٹ کی حمایت کی۔
دوسری طرف بھارت کے علاوہ تقریباً تما م ہی ٹیموں کے کھلاڑی پی ایس ایل پاکستان میں آ کر کھیل چکے ہیں۔انہیں کبھی سیکیورٹی کا کوئی ایشو نہیں ہوا۔دنیا کے تمام نامور کھلاڑیوں نے پاکستان میں بلاخوف و خطر کرکٹ کھیلی اور شائقین سے بھرپور محبت اور عزت حاصل کی۔نیوزی لینڈ کے کمنٹیٹر’مائیک ہیز مین ‘بھی پاکستان اور نیوزی لینڈ کے میچز میں کمنٹری کے فرائض انجام دینے کیلئے آئے تھے تاہم نیوزی لینڈ ٹیم کی واپسی کے باوجود وہ واپس نہیں گئے اور اس وقت پاکستان میں رہ کر نیشنل ٹی ٹوئنٹی میں کمینٹری کر رہے ہیں اوراپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہے ہیں۔ ورلڈ کپ سے پہلے پاکستان کے علاوہ دیگر ٹیموں کے کھلاڑیوں کو آئی پی ایل میں میچز کھیلنے ہیں۔ وہیں افغانستان، نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے دورے منسو خ ہونے کے بعد پاکستان میں نیشنل ٹی ٹونٹی واحد پلیٹ فارم ہے، جس کے ذریعے کھلاڑی اپنے آپ کو ورلڈکپ کے لیے تیار کر سکتے ہیں۔نیشنل ٹی ٹونٹی میں کھلاڑیوں کی پرفارمنس بہت اہمیت کی حامل ہو گی۔کیونکہ یہ ٹورنامنٹ کھلاڑیوں کی فارم اور فٹنس کا حتمی فیصلہ کرے گا۔
جس طرح2009ء میں پاکستان میں سری لنکا کی ٹیم پر حملے کے بعد پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے بند ہو گئے تھے،ورلڈ کپ سے پہلے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ نے صرف ایک بہانہ ڈھونڈا، حالانکہ پاکستان نے نیوزی لینڈ کو بہترین سیکیورٹی فراہم کی تھی۔پاکستان ٹی ٹوئنٹی کا ورلڈ چیمپئن اس وقت بنا جب پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ بند ہو گئی تھی۔ پاکستانی ٹیم کو اب نیوزی لینڈ کے بہانے کا جواب ورلڈ کپ میں اچھی کارکردگی سے دینا چاہیے ، کیونکہ ورلڈ کپ میں اب پاکستان کا میچ بھارت کے ساتھ ساتھ نیوزی لینڈ کے ساتھ بھی انتہائی دلچسپی کا حامل ہو گا، کیونکہ دونوں ایک ہی گروپ میں کھیلیں گے۔
راولپنڈی میں اس وقت ڈومیسٹک ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ جاری ہے جس میں محمدحفیظ کے علاوہ ورلڈ کپ اسکواڈ کے تمام کھلاڑی اس ٹورنامنٹ میں حصہ لیے رہے ہیں۔ محمد حفیظ بیماری کے باعث راولپنڈی کے پہلے مرحلے میں شرکت نہیں کر سکے، البتہ اس بات کا امکان ہے کہ وہ دوسرے مرحلے میں شرکت کریں گے، جو لاہور میں ہو گا۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان بھی ورلڈ کپ کے لیے منتخب شدہ ٹیم سے ناخوش ہیں اور پی سی بی چیئرمین رمیز راجہ کو ٹیم میں تبدیلیوں کی ہدایت کی ہے ۔رمیز راجہ نے بھی ڈومیسٹک ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ ختم ہونے کے بعد تین سے چار تبدیلیوں کا اشارہ دے چکے ہیں ۔ آئی سی سی کے وضع کردہ قواعد و ضوابط کے مطابق ورلڈ کپ کیلئے قرنطینہ شروع ہونے سے 5روز قبل تک اسکواڈ میں تبدیلی کی جاسکتی ہے،یاد رہے کہ 17اکتوبر سے ورلڈٹی ٹوئنٹی کا آغاز ہورہا ہے۔ نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے دورے منسوخ کرنے کے بعد نیشنل ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ اب نہایت اہمیت اختیار کر چکا ہے، اس ٹورنامنٹ میں کھلاڑی اچھی کارکردگی دکھا کر ورلڈ کپ کے لیے ٹیم میں جگہ بنا سکتے ہیں۔
نیشنل ٹی ٹوئنٹی میچوں میں ورلڈ کپ اسکواڈ کے کچھ منتخب کھلاڑیوں کی کارکردگی دیکھ کرایسا لگتا ہے کہ ہمارا مڈل آرڈل بہت کمزور ہے اور صرف بابر اعظم اور محمد رضوان پر بھروسہ نہیں کرسکتے ۔ ورلڈ کپ میں مڈل آرڈر کا مضبوط ہونا ضروری ہے کیونکہ پاکستان کے گروپ میں روایتی حریف بھارت کے علاوہ نیوزی لینڈجیسی مضبوط ٹیمیں موجود ہیں جبکہ افغانستان کو بھی آسان حریف نہیں سمجھنا چاہیے۔پاکستان کو اس وقت اپنا مڈل آرڈر مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اور ٹیم میں شعیب ملک جیسے سینئر کھلاڑی کا انتخاب اس کمی کو پورا کرسکتا ہے ۔پاکستا ن میں ہمیشہ ایسا ہوتا رہا ہے کہ ورلڈ کپ اسکواڈ میں جن کھلاڑیوں کو شامل کیا جاتا ہے، بعد میں ان کی تبدیلی کر دی جاتی ہے۔ اب جو نیشنل ٹی ٹوئنٹی میں اچھی کارکردگی دکھائے گا، یقینا وہی ٹیم میں اپنی جگہ برقرار رکھ سکے گا۔ بہرحال جو بھی ٹیم شرکت کرے، پاکستانی شائقین کو ہر حال میں اپنے کھلاڑیوں کو سپورٹ کرنا چاہیے۔
نبیل احمد، کراچی