بچپن میں عام طور پر ان بچوں کو ذیادہ پیارا سمجھا جاتا ہے جن کا وزن ذیادہ ہوتا ہے، جن کے گال لٹک رہے ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو ان کی آنکھیں بھی نظر نہیں آرہی ہوتیں۔ ایک خاص عمر تک یہ موٹاپا “کیوٹ” لگ رہا ہوتا ہے لیکن ایک خاص عمر پر پہنچنے ک بعداگر اس پر قابو نہ پایا جائے تو یہ مستقبل کی کئی بیماریوں کا باعث بن جاتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اس مسئلہ کی جانب لوگوں کی آگہی بہت کم ہے ، ماؤں کو لگتا ہے بچہ جتنا موٹا ہوگا اتنا ہی صحت مند بھی ہوگا جبکہ یہ نظریہ سراسر غلط ہے اور اگر صحیح وقت پر اس کی تصیح نہ کی جائے تو یہ مستقبل کی کئی جسمانی اور ذہنی بیماریوں کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔ بچپن کا موٹاپا اکثر اوقات بیماریوں کا پیش خیمہ بھی بن جاتا ہے ۔والدین کو چاہیے کہ بچپن سے ہی بچوں کی متوازن غذا پر توجہ دیں ۔چھوٹی عمر سے ہی انہیں پھل اور سبزیاں کھانے کا عادی بنائیں، تاکہ ان چیزوں کو کھانےکی عادت بچپن سے ہی پختہ ہو جائے ۔والدین کو پہلے ایک سال کے دوران بچے کے وزن کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک شیر خوار اور صحت مند بچے میں فرق ہوتا ہے۔
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے باسیوں کو بھی موٹاپے کی وجہ سے صحت کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ گو اس حوالے سے اعداد و شمار دستیاب نہیں تاہم ماہرین کے مطابق اندازاً ملک کی ایک تہائی آبادی ایسی ہے جس کا وزن زیادہ ہے۔یہی نہیں بلکہ ملک کی کل آبادی کا 10 سے 15 فیصد حصہ یعنی دو کروڑ سے زیادہ افراد باقاعدہ طور پر موٹاپے کا شکار ہیں۔
بچے مختلف وجوہات کی بنیاد پر موٹاپے کا شکار ہو جاتے ہیں سب سے عام وجوہات جنیاتی عوامل، جسمانی کھیل کود اور دیگر سرگرمیوں کی کمی، غیر صحت بخش کھانے کے انداز یا ان تمام عوامل کا مجموعہ ہیں جن کی وجہ سے بچپن کے موٹاپے کو فروغ ملتا ہے۔ اس کے علاوہ وزن کا بڑھنا طبی عوامل جیسے ہارمونل مسائل کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے پر ایسا بہت کم ہی ہوتا ہے۔اس معاملے میں میڈیکل جانچ کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
اگرچہ وزن کے مسائل خاندانوں میں چلتے ہیں لیکن موٹاپے کی تاریخ والے تمام بچوں کا وزن زیادہ نہیں ہوگا ۔ جن بچوں کے گھر کے تمام افراد کا وزن زیادہ ہوگا اس بچے کا وزن بڑھنے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن اس میں بھی اہم کردار اس بچے کی روزانہ کی کھانے پینے اور رہن سہن کی عادات کا ہوتا ہے۔
بچپن کے موٹاپے کی ایک بہت بڑی وجہ فاسٹ فوڈ کا استعمال ہے جو آج کل کے بچوں میں بے انتہا بڑھ چکا ہے ، برگر، پیزِا ، فرائز اور اسی قسم کے فرائیڈ آئٹم کو گھر کے کھانوں پر فوقیت دی جاتی ہے جس کی وجہ سے گھر میں پکنے والا معیاری اور مفید کھانا جس میں خالص سبزیاں ، دالیں اور گھر کا صاف گوشت نظر انداز ہوجاتا ہے اور بچے اس کے فوائد سے محروم ہوجاتے ہیں۔چار سے آٹھ سال کے دوران بچوں کی نشوونما تیزی سے ہوتی ہے، اس لئے اس دوران بچوں کو متوازن غذائیت کی بہت ضروری ہوتی ہے۔اس عمر میں بچےعموماً جنک فوڈ کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں۔جنک فوڈ بچوں کی صحت کے لیے اچھا نہیں ہے ایسے میں ماں کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔وہ بچوں کی پسند کی غذا بنا کر کھلائے اور ایسی غذا بنا کر دیں، جس میں وٹامنز اور پروٹین کی مقدار زیادہ ہو۔ابتداء سے مائیں اپنے بچوں کے لیےجن غذاؤں کا انتخاب کریں گی تو وہ مستقبل میں ان بچوں کی صحت اور ان کے کھانے پینے کی عادات وذہنی نشوونما میں بہتری کا باعث ہو گی۔ کھیل کود کے ساتھ غذائی مینو بھی تبدیل کیا جانا چاہئے۔ اس کے علاوہ کینڈیز، چاکلیٹس اور میٹھے مشروبات بھی وزن بڑھانے کی بڑی وجہ مانے جاتے ہیں۔
اب یہ دیکھنا ہے کہ ان غذائوں کی وجہ سے مستقبل میں کیا خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔نوجوانی میں موٹاپے کا سامنا کرنے والے افراد میں 24 سال بعد بھی موٹاپا برقرار رہ سکتا ہے جبکہ ہائی کولیسٹرول، ہائی بلڈ پریشر، گردوں کے امراض، ہارٹ فیلیئر، کینسر، دمہ اور نیند کی دوران سانس کی رکاوٹ جیسے امراض کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔
ٹائپ 2 ذیابیطس:
یہ دائمی حالت آپ کے بچے کے جسم کے گلوکوز کے استعمال کے طریقے کو متاثر کرتی ہے۔ موٹاپا اور بے ترتیب طرز زندگی ٹائپ 2 ذیابیطس کے خطرے کو بڑھاتا ہے۔
ہائی کولیسٹرول اور ہائی بلڈ پریشر:
ناقص خوراک آپ کے بچے میں یہ دونوں یا ان میں سے ایک بیماری پیدا کرنے کی وجہ بن سکتی ہے ۔ یہ عوامل شریانوں میں تختیوں کی تعمیر میں حصہ ڈال سکتی ہیں اور شریانوں کو تنگ کر سکتی ہیں جس کی وجہ سے مستقبل میں فالج یا دل کا دورہ پڑ سکتا ہے کولہوں اور گھٹنوں پر دباؤ کی وجہ بنتا ہے ۔ بچپن کا موٹاپا کولہوں، گھٹنوں اور کمر میں درد کا باعث بنتا ہے۔
سانس کے مسائل:
دمہ ان بچوں میں عام ہے جن کا وزن زیادہ ہے۔ ان کی نیند میں خلل پیدا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس بیماری میں رات کو نیند کے دوران سانس لینے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جگر کی تکلیف:
بچپن کا موٹاپا بچوں میں جگر کی تکلیف کا باعث بنتا ہے اس کی کوئی علامات نہیں ہوتی پر یہ جگر میں چربی ذخیرہ کرنے، جگر کو زخمی کرنے اور جگر کو نقصان پہنچانے کی وجہ بنتا ہے۔
سماجی اور جذباتی مسائل:
جو بچے موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں انہیں اپنے ساتھیوں کی جانب سے چھیڑچھاڑ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کی وجہ سے بچے میں خوداعتمادی کی کمی، ڈپریشن اور اضطراب کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔موٹاپا اور جذباتی مسائل بچپن میں ساتھ ساتھ نشوونما پاتے ہیں۔موٹاپا اور جذباتی مسائل آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ذہنی صحت اور موٹاپا سات سال کی عمر سے ایک دوسرے سے منسلک دکھائی دیتے ہیں اور یہ دونوں ایک دوسرے کی شدت میں اضافہ بھی کرتے ہیں۔ ’جیسے کے بچوں میں موٹاپے اور جذباتی مسائل کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے تو عوامی صحت کے لیے ان دونوں کی ساتھ موجودگی کو سمجھنا انتہائی اہم ہے کیونکہ یہ دونوں مسئلے بالغوں کی بری صحت سے جڑے ہیں۔
ان تمام مسائل سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ بچپن سے ہی کچھ خاص باتوں کا خاص خیال رکھا جائے۔ پھلیاں ،پالک اور دیگر سبزیوں کی مختلف ڈشز بچوں کو کھلائی جاسکتی ہیں۔ ان میں وٹامنز اور فولاد کی مقدار زیادہ پائی جاتی ہے۔بچوں کو دودھ، دہی اور اس کی بنی اشیاء لازمی کھلائیں، کیوں کہ اس میں کیلشیم بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے جو بچوں کی ہڈیوں کی صحت کے لیے ضروری ہے۔ بچوں کو ناشتہ کرنے کا عادی بنائیں۔جو بچے ناشتہ نہیں کرتے ان میں وٹامن بی کی کمی پائی جاتی ہے، اس لئے ناشتے میں سبزیاں دیں۔سلاد کے ساتھ پھل بھی دیں ۔ علاوہ ازیں بچوں میں ابتداء سے ہی ورزش کی عادت ڈالیں ،پانی خوب پلائیں، اسکول جاتے وقت لنچ باکس اور پانی کی بوتل ضرور دیں۔
صحت مند کھانے اور باقاعدہ جسمانی سرگرمیوں کو اپنی خاندانی روٹین کا حصہ بنائیں۔اس کا سب کو فائدہ ہو گا اور کوئی بھی تنہائی کا شکار نہیں ہو گا۔
سندس رانا، کراچی