غیر ملکی خبر رساں ادارے نے برطانیہ کو بینک فراڈ کی دنیا کا دارالحکومت قرار دے دیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق رواں سال کے پہلے 6 ماہ میں لوگوں کے ایک ارب ڈالر اڑا لیے گئے جب کہ بیرون ملک سے دھوکے بازی میں بھارت اور مغربی افریقا کے شہری ملوث نکلے۔
تاریخ میں کسی بھی سال کے مقابلے میں گزشتہ 12 ماہ میں سب سے زیادہ فراڈ کے کیسز سامنے آئے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ الیکٹرانک بینکنگ میں اسکیمز اور فراڈ کے کیسز لاک ڈاؤن کے عرصے میں سب سے زیادہ ہوئے ہیں اور اس کی وجہ صارفین کا اپنا پرسنل ڈیٹا انٹرنیٹ پر بڑی تعداد میں اپ لوڈ کرنا ہے کیونکہ کرمنلز بینک صارفین کی معلومات کا غلط استعمال کرتے ہوئے ان کے اکاونٹس تک رسائی حاصل کرکے رقم چوری کرتے ہیں۔
ڈیٹا کے مطابق رواں برس کے پہلے 6 ماہ میں ایک بلین ڈالر چوری ہوئے جوکہ سال 2020 کے مقابلے میں 30 فیصد اور سال 2017 کے مقابلے میں 60 فیصد اضافی ہے۔
برطانوی حکومت کے ماتحت نیشنل اکنامک کرائم سینٹر نے بینکنگ سیکٹر سے اتفاق کرتے ہوئے اسے برطانیہ کے دفاع کیلئے خطرہ قرار دے دیا ہے۔
دفاعی ماہرین اور سینئر بینکرز کا کہنا ہے کہ بہت سے فراڈ اٹیکس بیرونِ ملک سے کیے گئے ہیں جن میں بھارت اور ویسٹ افریقا شامل ہیں، اِن جرائم سے نمٹنے کیلئے برطانوی حکام نے فیس بک، گوگل، ایمازون اور ای بے سے رابطہ بھی کرلیا ہے۔
سماجی روابط اور ای کومرس کی کمپنیوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس نوعیت کے فراڈ کی روک تھام کی جائے۔