جب ہم خود بدلنا نہیں چاہتے تو چاہے فوج آئے یا عمران ،چاہے صدارتی نظام ہو یا شریعت، کوئی مائی کا لعل ہمیں بدل نہیں سکتا۔
ایف بی آر کے سابق چیئر مین شبر زیدی نے انکشافات کرتے ہوئے کہا کہ میں سات انڈسٹریز پہ ٹریک اینڈ ٹریس لگانے کی کوشش میں تھا جیسے سیمنٹ، سیگریٹ وغیرہ، لیکن ہم ناکام ہو گئے، سیگریٹ پہ لگایا گیا تو عدالت سے اسٹے آرڈر آ گیا۔ دوسری میری کوشش تھی ایف بی آر کو بینکنگ ڈیٹا تک رسائی حاصل ہو، پاکستان میں بزنس اکاونٹ 4 کروڑ ہیں لیکن ٹیکس میں 1 کروڑ ڈیکلئیر ہیں، ایک کروڑ روپے اکاونٹ میں ہونے پر NTN لگنا چاہیے۔
شبر زیدی نے کہا کہ بجلی کے ساڑھے تین لاکھ انڈسٹرئیل کمرشل کنکشن ہیں لیکن سیلز ٹیکس میں 40 ہزار رجسٹرڈ ہیں، میں نے ہر ڈسکو کو ڈیٹا کے لئے خط لکھا، ڈیٹا نہیں دیا گیا، پھر لاہور چیمبر آف کامرس سے پریشر آنا شروع ہوگیا کہ ہاتھ ہولا رکھیں۔
زراعت کے حوالے سے سابق چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آڑھتی اتنا پاور فل ہے جس کی مرضی وہ قیمت بڑھائے یا کم کرے، مہنگائی کی اصل وجہ صرف آڑھتی ہے، وہ اتنا طاقتور اس لئے ہے کہ کرپشن کا پیسہ اسکا پارکنگ لاٹ ہے، میری آڑھتیوں سے بھی میٹنگ ہوئی تھی مجھے کہا گیا آپکے بس کا روگ نہیں ہے۔
گوشت (بیف) کی اتنی بڑی ٹریڈ ہے ایک گوشت والا مجھ سے زیادہ پیسہ کما رہا ہے، لیکن سرکار کو ایک پیسہ نہیں جاتا، پولٹری کس کی ہے سب کو پتہ ہے، پولٹری پہ کتنا پیسہ سرکار کو جاتا ہے؟پولٹری پہ ٹوٹل انکم ٹیکس پورے پاکستان سے تیس چالیس کروڑ سے زیادہ نہیں ہے.
شبیر زیدی نے مزید کہا کہ پاکستان میں سلک کی ایک بھی ملز نہیں چل رہی، نہ ہی پاکستان سلک امپورٹ کر رہا ہے، تو اندازہ لگائیں پاکستان میں سلک کا کپڑا کہاں سے آ رہا ہے ؟ سارا کچھ یہاں سمگلنگ سے چل رہا ہے.
کراچی چیمبر میں سراج قاسم تیلی کو کہا تھا کہ ٹیکس سے متعلق ساری مشکلات ختم کر دوں گا، لیکن شرط یہ ہے کل سے آپ کراچی میں سمگل گڈز نہیں بیچیں گے، لیکن انہوں نے انکار کر دیا، یہ ہمارے رویے ہیں۔
شبر زیدی نے مزید کہا کہ مہنگائی ختم کرنے اور معشیت ٹھیک کرنے کا پہلا علاج یہ ہے کہ پانچ ہزار کا نوٹ بند کر دیں، بڑے نوٹ نہیں ہونے چاہیں، دوسرا مارکیٹ تک رسائی کو بہتر بنائیں، آڑھتی مڈل مین خودبخود ختم ہو جائے گا، اس میں چھ سات بڑے آئیٹم لائیں.
انہوں نے کہا کہ انڈر انوائسنگ تقریبا 8 ارب ڈالر کے قریب تھی، جسے کم کر کے 3 ارب ڈالر کے پاس لایا گیا ہے، عمران خان کی حکومت کو اگر کوئی کریڈٹ جاتا ہے تو وہ یہ ہے، اس وجہ سے امپورٹر مجھ سے بہت ناراض ہوئے، میں نے کسٹم کلئیرنس پرائس کو ریٹیل پرائس کردیا. میں نے پوزیشن لی، عمران خان نے بھی لی، میرا سوال ہے بڑے خرچے پر شناختی کارڈ کے شرط کہاں گئی؟ وہ معاملہ کہاں پہنچا، چاہے اسکی لمٹ پچاس ہزار کی بجائے دو لاکھ کر دیں، لیکن معاملہ کہاں پہنچا ہے آج ؟ .
سابق چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ میں نے ایک اکاونٹ دیکھا جس میں اربوں روپے آ جا رہے ہیں لیکن اسکا NTN کیوں نہیں ہے؟ سٹیٹ بینک یہ کیوں نہیں کرتا جس کے اکاونٹ میں اتنی بڑی رقوم ہوں وہ NTN رکھے گا، لمٹ ایک کروڑ کر لیں، دس کروڑ کر لیں، لیکن نمبر تو ہونا چاہیے۔ عام طور پر کسی سیاستدان کی کمپنی لسٹڈ نہیں ہے، وہ لوگ ڈاکومینٹیشن چاہتے ہی نہیں، میں خبر دے رہا ہوں، فرٹیلائزر ڈاکومنٹڈ ہے لیکن کوئی ڈیلر رجسٹرڈ نہیں ہے، شوگر کا کوئی ڈسٹری بیوٹر رجسٹرڈ نہیں ہے۔ مجھے بزنس کمیونٹی کی طرف سے بہت زیادہ دباو کا سامنا کرنا پڑا ہے، کوئی ایک فیصد بھی ڈاکومینٹیشن کے لئے انٹرسٹڈ نہیں ہے، وہ ہر وہ کوشش کرتے ہیں جس میں ڈاکومینٹیشن نہیں ہو۔
شبر زیدی نے کہا کہ یہ ایشو منظم اور غیرمنظم کا ہے کہ اگر میں کمپنی میں آکے بزنس کروں گا تو ٹیکس ریٹ بھی زیادہ ہوگا ریکوائرمنٹ بھی زیادہ، پریشانی بھی زیادہ، انفرادی میں یہ سب نہیں ہوگا، تو یہ تصور غلط ہے، بات سیاسی ہوجائے گی، ذاتی کاروبار کا یہاں جو سلسلہ ہے اسکا منبہ نوازشریف ہیں انکی پالیسی دیکھ لیں، انکے گروپ میں کوئی کمپنی لسٹڈ نہیں ہے، کسی سیاستدان کی کمپنی لسٹڈ نہیں، سوائے ایک جہانگیر ترین کے۔ اس لئے کہ ان کو ڈاکومینٹیشن نہیں چاہیے، یہ پورا مافیا ضیا کے دور میں بنا ہے۔