کابل : افغانستان کے دارالحکومت میں داعش کو نشانہ بنانے کے لیے امریکا کی جانب سے کیے گئے ڈرون حملے کے نتیجے میں بچوں سمیت ایک ہی خاندان کے 10 افراد جاں بحق ہو گئے۔
الجزیرہ ٹی وی کے مطابق ایمل احمدی اور نجراب افغانستان سے روانگی کے لیے اپنا تمام سامان باندھ چکے تھے اور کابل ایئرپورٹ سے امریکا روانگی کے حوالے سے حتمی پیغام کے منتظر تھے۔
تاہم امریکا کی جانب سے روانگی کے پروانے کے بجائے ان افراد پر اتوار کی دوپہر ڈرون حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں ایک ہی خاندان کے 10 افراد مارے گئے۔
امریکا کا کہنا تھا کہ یہ حملہ داعش کے دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا لیکن امریکی دعوے کے برعکس اس میں ایک ہی خاندان کے 2 سال سے 49 سال تک کی عمر کے 10 افراد لقمہ اجل بن گئے۔
اس حملے میں مرنے والوں میں ایمل احمدی کے بھائی، بھتیجے اور بھانجے بھی شامل ہیں اور وہ ابھی تک غیریقینی کے عالم میں ہیں کہ کس طرح چند لمحوں میں ان کا پورا خاندان اجڑ گیا۔
کئی گھنٹے تک وہ افغان اور بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹس کو دیکھتے رہے جس میں ان حملوں میں مرنے والوں کو داعش کے دہشت گرد قرار دیا گیا لیکن حقیقت آشکار ہونے پر ان کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔
انہوں نے حملے میں جاں بحق دو سالہ ملائکہ سمیت دیگر بچوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ معصوم اور بے یارو مددگار بچے تھے، اگر میں بھی گھر کا ضروری سامان خریدنے کے لیے باہر نہ گیا ہوتا تو ان کے ساتھ اس ڈرون حملے کا نشانہ بن گیا ہوتا۔
ایمل احمدی نے کہا کہ ان کے 40 سالہ بھائی اور انجینئر زمارائی ابھی اپنے کام سے گھر لوٹے تھے کیونکہ پورا خاندان امریکا جانے والا تھا، اس لیے انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ وہ گاڑی کو دو منزلہ گھر کے اندر پارک کر دے کیونکہ وہ امریکا جانے سے پہلے اپنے بیٹے کو ڈرائیونگ سکھانا چاہتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بات سنتے ہی سارے بچے گاڑی میں گھس کر بیٹھ گئے تاکہ گلی سے گھر کے گارڈن تک کی سیر کر سکیں اور جیسے ہی گاڑی گھر میں آ کر رکی تو انہیں راکٹ سے نشانہ بنا دیا گیا۔
پڑوسیوں نے بتایا کہ وہ جگہ جہاں چند منٹ قبل بچے کھیل رہے تھے اب وہ ایک بھیانک منطر پیش کررہی ہے، دیواروں پر انسانی گوشت اور اعضا نظر آرہے تھے اور وہ خون سے لال ہو گئی تھی جبکہ ہر جگہ گلاس ٹوٹے ہوئے تھے۔
امریکا نے اس حملے پر مؤقف اپنایا تھا کہ انہوں نے کابل میں داعش کے خطرے کے خاتمے کے لیے ایک گاڑی کو نشانہ بنایا۔
خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹکام) کے ترجمان بل اربن کا کہنا تھا کہ ‘امریکی فورسز نے اپنے دفاع میں کابل میں ایک گاڑی پر فضائی کارروائی کی ہے’۔
ایک افغان شہری عبدالمتین نے کہا کہ اگر آپ صحیح اہداف کو نشانہ نہیں بنا سکتے تو افغانستان کو افغان عوام کو سونپ دیں۔
زمارائی ایک دہائی سے زائد عرصے سے تکنیکی انجینئر کے طور پر کام کررہے تھے اور ان کے حملے میں مارے گئے ان کے بہنوئی ناصر نجرابی جنوبی صوبے قندھار میں افغان فوج کے لیے خدمات انجام دے چکے تھے۔
اس حملے پر غم و غصے میں بھرے پڑوسیوں اور افغان عوام نے امریکا سے مطالبہ کیا کہ وہ ان مرنے والوں کے نام کلیئر کرے اور اس سلسلے میں تحقیقات شروع کرے۔
واضح رہے کہ 26 اگست کو کابل ایئرپورٹ پر ہونے والے حملوں میں امریکی فوج کے 13 اہلکاروں اور 22 طالبان جنگجوؤں سمیت 100 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔