اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے سرح سود پر ایک فیصد بڑھنے سے شرح سود 8.75 سے بڑھ کر 9.75 ہوگئی ہے۔
مارکیٹ ماہرین کے مطابق اسٹیٹ بینک کی جانب سے مانیٹری پالیسی میں شرح سود ایک سے ڈیڑھ فیصد بڑھائے جانے کا امکان ہے۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے آخری بار مانیٹری پالیسی کا اعلان 19 نومبر کو کیا گیا تھا جس میں شرح سود 150 بیسس پوائنٹس یا 1.5 فیصد بڑھائی گئی تھی جس کے بعد سود کی شرح 8.75 فیصد ہوگئی۔
شرح سود میں اضافے کے امکانات مزید اس وقت بڑھے جب اسٹیٹ بینک کی جانب سے یکم دسمبر کو جو ٹریژری بلز جاری ہوئے اس پر کامیاب آکشنز کے نتائج کے مطابق 3 ماہ کے ٹی بلز پر منافع کی شرح 10.39 فیصد اور 6 ماہ کے ٹی بلز پر 11.05 فیصد کی گئی۔
اسکے علاوہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے سپلیمنٹری آوٹ لک رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی بڑھنے کا خدشہ ہے جس کی وجہ سے مقامی قیمتوں پر دباو میں اضافے کا امکان ہے۔ واضح رہے کہ نومبر میں مہنگائی کی شرح 11.5 فیصد تھی جو گزشتہ 20 ماہ کی بلند ترین سطح ہے۔
کراچی چیمبر نے شرح سود میں اضافہ نہ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ شرح سود میں اضافے سے کاروباری سرگرمیاں جمود کا شکار ہوں گی۔
شرح سود میں اضافے کی بڑی وجہ مہنگائی کی بلند شرح ہے
اسٹیٹ بینک کے مانیٹری پالیسی بیان کے مطابق گزشتہ اجلاس کے بعد مہنگائی کا دباؤ خاصا بڑھ چکا ہے اور عمومی مہنگائی اگست میں 8.4 فیصد سے بڑھ کر ستمبر میں 9 فیصد اور اکتوبر میں 9.2 فیصد تک پہنچ کی ہے، جس کا بنیادی سبب توانائی کی لاگت بڑھنا ہے۔
مرکزی بینک کے مطابق مہنگائی کی رفتار کافی بڑھ چکی ہے اور پچھلے دو ماہ میں اوسط ماہانہ مہنگائی دو فیصد کی بلند سطح پر رہی اور مکانات کے کرایوں، بغیر سلے کپڑوں، ملبوسات، ادویات، چپل، جوتے اور دیگر اشیاء دیہی اور شہری دونوں سالانہ 6.7 فیصد ہوگئی ہیں۔
مانیٹری پالیسی میں یہ بھی خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اوسط مہنگائی کے 7 تا 9 فیصد کی پیش گوئی کو بھی خطرات لاحق ہیں.