طالبان کے کابل کے مضافات تک پہنچنے کے بعد گزشتہ ماہ ملک سے فرار ہونے والے سابق افغان صدر اشرف غنی نے اپنی حکومت کے اچانک خاتمے پر معافی مانگ لی تاہم اس بات کی تردید کی کہ وہ اپنے ہمراہ لاکھوں ڈالرز لے گئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق ٹوئٹر پر جاری بیان میں اشرف غنی نے کہا کہ انہوں نے سیکیورٹی ٹیم کے مطالبے پر ملک چھوڑا، جنہوں نے کہا تھا کہ اگر وہ یہاں رہے تو ‘1990 میں ہونے والی خانہ جنگی کے دوران گلی گلی میں پیش آنے والی ہولناک لڑائی’ جیسے خطرے کا سامنا ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘کابل چھوڑنا میری زندگی کا مشکل ترین فیصلہ تھا لیکن مجھے یقین تھا کہ بندوقوں کو خاموش کرانے کے علاوہ کابل اور اس کے 60 لاکھ شہریوں کو محفوظ رکھنے کا صرف یہ ہی راستہ ہے۔
یہ بیان اس پیغام کی بازگشت ہے جو اشرف غنی نے اپنی روانگی کے فوراً بعد متحدہ عرب امارات سے بھیجا تھا۔
اس بیان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ پیغام اشرف غنی کی جانب سے روانگی سے قبل متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کو بھیجا گیا تھا جس پر انہیں سابقہ اتحادیوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے ان پر غداری کے الزامات بھی لگائے۔
اشرف غنی عالمی بینک کے عہدیدار تھے جو دھوکے بازی کے بے شمار الزامات اور متنازع انتخابات کے بعد دو مرتبہ صدر بنے انہوں نے لاکھوں ڈالر نقد لے جانے سے متعلق رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ‘یہ مکمل اور قطعی طور پر غلط’ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘کرپشن ایسا طاعون ہے جو کئی دہائیوں سے ہمارے ملک کو معذور کر رہا ہے اور بطور صدر کرپشن کے خلاف لڑائی میری کوششوں کا مرکزی نقطہ رہا ہے’۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ اور ان لبنانی اہلیہ ‘ذاتی مالیاتی معاملات میں کسی بدعنوانی کے حوالے سے بہت حساس ہیں’۔
انہوں نے ملک میں گزشتہ 4 دہائیوں سے جاری جنگ کے دوران افغان شہریوں کی دی گئی قربانیوں کو سراہا۔
انہیں نے گہرے صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘میرا باب بھی میرے پیشروؤں کی طرح استحکام اور خوشحالی یقینی بنائے بغیر المیے پر اختتام پذیر ہوا، میں افغان شہریوں سے معذرت چاہتا ہوں کہ میں مختلف انداز میں اسے ختم نہیں کر سکا’۔