چین کے شہر شنگھائی میں اپریل میں کورونا وائرس کی وبا کے باعث لاک ڈاؤن کا نفاذ ہوا تھا ۔
یہ لاک ڈاؤن کا اتنا سخت تھا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اپریل میں شنگھائی میں ایک گاڑی بھی فروخت نہیں ہوئی۔
اگر آپ کو علم نہ ہو تو یہ جان لیں کہ آبادی کے لحاظ سے شنگھائی دنیا کا تیسرا بڑا شہر ہے جس کی آبادی ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے اور وہاں لاک ڈاؤن کو 6 ہفتوں سے زیادہ وقت ہوچکا ہے۔
بلومبرگ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ووہان میں کورونا کی وبا کے 2 سال بعد شنگھائی میں کوویڈ کی بدترین لہر کے بعد وہاں لاک ڈاؤن لگایا گیا تھا جس کے دوران ڈھائی کروڑ میں سے بیشتر رہائشی اپنے گھروں یا رہائشی اپارٹمنٹس تک محدود ہوگئے تھے۔
شنگھائی آٹو موبائل سیلز ایسوسی ایشن نے اس حوالے سے بتایا کہ گاڑیوں کے لگ بھگ تمام شو رومز اپریل کے دوران بند رہیں اور اس وجہ سے ایک نئی گاڑی بھی فروخت نہیں ہوئی۔
300 کمپنیوں کی نمائندگی کرنے والی ایسوسی ایشن کے مطابق اس کے مقابلے میں اپریل 2021 میں شنگھائی کے شہریوں نے 26 ہزار 311 گاڑیاں خریدی تھیں ۔
چین بھر میں بھی گاڑیوں کی فروخت میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 36 فیصد کمی آئی ۔
شنگھائی کو چین کا مالیاتی ہب قرار دیا جاتا ہے اور بظاہر اب کوویڈ کی لہر کا زور ختم ہوچکا ہے اور اب 3 دن تک مقامی سطح پر کوویڈ کے نئے کیس سامنے نہ آنے پر پابندیوں کو بتدریج نرم کیا جائے گا۔
مگر ابھی بھی شنگھائی میں 9 لاکھ 80 ہزار افراد لاک ڈاؤن کی سخت ترین قسم کا سامنا کررہے ہیں جس کے تحت وہ گھر سے باہر نہیں نکل سکتے۔
اسی طرح کم شدت والے علاقوں میں بھی لوگوں کو آزادی سے نقل و حرکت کی آزادی نہیں ۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق شنگھائی کے ہوائی اڈے پر مسافروں کی آمد کی تعداد میں بھی اپریل میں 99 فیصد کمی آئی ۔