کورونا وائرس سے بچاؤ کے لئے مختلف ٹوٹکے استعمال کیے جاتے ہیں جن میں سے اکثر نسخے دیسی ہوتے ہیں اور بہت سارے لوگ اس کو استعمال بھی کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق کووڈ 19 سے متاثر ہونے کا خطرہ کم کرنے میں بہترین مددگار ہماری غذا ہے جو بیماری سے بچاؤ کے لئے بہت معاون ثابت ہوسکتی ہے۔
برطانیہ اور امریکا کے طبی ماہرین کی مشترکہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ صحت کے لئے فائدے مند غذاؤں کا استعمال کرنے والے افراد میں کووڈ 19 سے متاثر ہونے کا امکان دیگر کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔
کنگز کالج لندن اور ہارورڈ میڈیکل اسکول کی اس تحقیق میں زوئی کووڈ اسٹڈی ایپ کے لگ بھگ 6 لاکھ افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی۔
ان افراد کو فروری 2020 کے دوران غذائی عادات کے حوالے سے ایک سروے حصہ بنایا گیا ،جب ان ممالک میں کورونا کی وباء پھیلنا شروع نہیں ہوئی تھی بعد ازاں ان میں سے 19 فیصد میں کووڈ کی تشخیص ہوئی۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو افراد صحت کے لئے فائدے مند غذاؤں کا استعمال کرتے ہیں ان میں غیر معیاری خوراک کھانے والے لوگوں کے مقابلے میں کووڈ سے متاثر ہونے کا خطرہ 10 فیصد اور کووڈ ہونے کی صورت میں سنگین بیماری کا خطرہ 40 فیصد تک کم ہوتا ہے۔
یہ پہلی تحقیق ہے جس میں غذا اور کووڈ 19 کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا گیا تھا اور ثابت ہوا کہ صحت بخش غذا سے بیماری سے متاثر ہونے کا امکان کم ہوجاتا ہے، مخصوص غذائیں یا اجزاء کی بجائے اس سروے میں وسیع غذائی رجحانات کو جاننے کے لئے ڈیزائن کیا گیا۔
تحقیق کے مطابق پھلوں، سبزیوں، اناج اور چربی والی مچھلی پر مشتمل غذا صحت کے لئے بہت زیادہ مفید جبکہ پراسیس غذاؤں کا زیادہ استعمال نقصاندہ ہوتا ہے۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ جو لوگ صحت کے لئے بہترین غذا کا استعمال عادت بناتے ہیں ان میں کووڈ کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں 10 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔
تمام تر عناصر جیسے جسمانی وزن، عمر ، تمباکو نوشی، جسمانی سرگرمیوں اور پہلے سے مختلف بیماریوں کو مدنظر رکھنے پر بھی غذا کے معیار اور کووڈ کے خطرے کے درمیان تعلق برقرار رہا۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ غریب علاقوں کے رہائشی اور غیر معیاری غذا کا استعمال کرتے ہیں ان میں کووڈ کی تشخیص کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں 25 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔
ان نتائج کی بنیاد پر محققین نے تخمینہ لگایا کہ کووڈ کے لگ بھگ ایک چوتھائی کیسز کی روک تھام ممکن ہے اگر غذا کے معیار اور سماجی حیثیت کو بہتر بنا دیا جائے۔
واضح رہے کہ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل گٹ میں شائع ہوئے ہیں۔