برمنگھم میں 20ہزار تماشائیوں کی موجودگی میں کھیلے گئے سیریز کے تیسرے اور آخری ٹی20 میچ میں انگلینڈ نے ٹاس جیت کر پاکستان کو بیٹنگ کی دعوت دی۔
پاکستان نے اننگز کا آغاز کیا تو پہلی ہی گیند پر امام الحق نے چوکے کے ساتھ اننگز کا آغاز کیا جبکہ وہ اسی اوور میں خوش قسمت بھی رہے کیونکہ ان کے خلاف ایل بی ڈبلیو کی زوردار اپیل مسترد کردی گئی۔
دونوں اوپنرز نے اسکور کو 21 تک پہنچایا ہی تھا کہ فخر زمان صرف چھ رنز بنانے کے بعد ثاقب محمود وکٹ دے بیٹھے۔
اس کے بعد امام کا ساتھ دینے کپتان بابر اعظم آئے اور دونوں نے ذمے دارانہ بیٹنگ کرتے ہوئے اچھی شراکت قائم کی۔
امام الحق نے ابتدائی دو میچوں میں ناکامی کے بعد اس میچ میں قدرے بہتر کھیل پیش کرتے ہوئے نصف سنچری مکمل کی اور کپتان کے ہمراہ 92 رنز کی شراکت قائم کی۔
امام 56 رنز بنانے کے بعد میٹ پارکنسن کی میچ میں پہلی وکٹ بن گئے۔
امام کے آؤٹ ہونے کے بعد بابر نے نئے بلے باز محمد رضوان کے ساتھ مل کر تیزی سے اسکور کو آگے بڑھانا شروع کیا اور دونوں کھلاڑیوں نے 8 کی اوسط سے رنز بناتے ہوئے سنچری شراکت قائم کی۔
بابر اعظم لگاتار دو میچوں میں ناکامی کے بعد ایک مرتبہ پھر پرانی فارم میں نظر آئے اور ابتدا میں سست کھیل کے بعد شاندار بیٹنگ کرتے ہوئے ون ڈے کرکٹ میں اپنی 14ویں سنچری مکمل کی۔
بابر اعظم اور محمد رضوان نے 20اوورز سے کم میں 179 رنز کی بہترین شراکت قائم کی اور اس شراکت کا خاتمہ اس وقت ہوا جب رضوان 58 گیندوں پر 74 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہو گئے۔
اس کے بعد صہیب مقصود، حسن علی اور فہیم اشرف ایک دو بڑے شاٹس لگا کر پویلین لوٹ گئے جبکہ شاداب خان اور شاہین آفریدی نے اسکور بورڈ کو زحمت نہیں دی۔
لیکن دوسرے اینڈ سے بابر اعظم نے بہترین کھیل پیش کرتے ہوئے نہ صرف ون ڈے کرکٹ میں اپنی سب سے بڑی اننگز کھیلی بلکہ ہاشم آملہ کا تیز ترین 14 سنچریوں کا ریکارڈ بھی تور ڈالا، وہ اننگز کے آخری اوور میں 4 چھکوں اور 14 چوکوں کی مدد سے 158 رنز بنانے کے بعد پویلین لوٹے۔
پاکستانی کپتان سے قبل ون ڈے میں تیز ترین سنچریوں کا ریکارڈ ہاشم آملہ کے پاس تھا، انہوں نے یہ اعزز 84 اننگز کھیل کر حاصل کیا تھا جب کہ بابر نے 81 اننگز میں ہی یہ ریکارڈ توڑ کر پہلی پوزیشن پر قبضہ جما لیا۔
اس فہرست میں تیسرے نمبر پر ڈیوڈ وارنر ہیں جنہوں نے 98 اننگز جب کہ ویرات نے 103 اننگز کھیل کر یہ اعزاز حاصل کیا تھا۔
پاکستان نے مقررہ اوورز میں 9 وکٹوں کے نقصان پر 331 رنز بنائے، انگلینڈ کی جانب سے بریڈن کارس نے 5 وکٹیں حاصل کیں۔
انگلینڈ کے فل سالٹ نے پہلے اوور میں شاہین شاہ آفریدی کو 4 چوکے لگا کر دھواں دار آغاز کیا تاہم دوسرے اوور میں حسن علی نے ڈیوڈ مالان کو صفر پر آؤٹ کرکے میزبان ٹیم کے ارادوں کو روک دیا۔
فل سالٹ نے زیک کرالی کے ساتھ مل کر اسکور 53 رنز تک پہنچایا لیکن حارث رؤف کی گیند پر وہ اپنی وکٹ نہیں بچا سکے اور 37 رنز کی اننگز کھیلنے کے بعد فخر زمان کو کیچ دے کر پویلین لوٹ گئے۔
انگلینڈ کی تیسری وکٹ زیک کرالی کی صورت میں گری جب حارث رؤف نے ان کی جارحانہ اننگز کا خاتمہ کردیا، جس میں 7 چوکے شامل تھے۔
شاداب خان نے پاکستان کے لیے خطرناک بننے والی جوڑی کی شراکت کو توڑتے ہوئے تجربہ کار آل راؤنڈر اور قائم مقام کپتان بین اسٹوکس کو محمد رضوان کے ہاتھوں کیچ کروا دیا۔
بین اسٹوکس 28 گیندوں پر 32 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے، وہ آؤٹ ہونے والے انگلینڈ کے چوتھے کھلاڑی تھے۔
پاکستان کو پانچویں کامیابی کے لیے بھی زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا اور شاداب نے ایک اور وکٹ حاصل کرتے ہوئے جان سمپسن کو چلتا کر کے انگلینڈ کو پانچواں نقصان پہنچایا۔
165 رنز پر پانچ وکٹیں گرنے کے بعد میچ میں پاکستان کی فتح کے امکانات روشن ہو گئے تھے اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ قومی ٹیم جلد ہی فتح سے ہمکنار ہو جائے گی لیکن جیمز ونس اور گزشتہ میچ کے ہیرو لوئس گریگری نے پاکستان کی خوش فہمی کو جلد دور کردیا۔
گریگری نے جیمز ونس کے ساتھ مل کر شاندار بیٹنگ کا مظاہرہ کیا اور چھٹی وکٹ کے لیے 129رنز کی شراکت قائم کر کے قومی ٹیم کو فتح کی دہلیز تک پہنچا دیا۔
جیمز ونس نے مشکل وقت میں بہترین بیٹنگ کرتے ہوئے کیریئر کی پہلی سنچری مکمل کرنے کا اعزاز حاصل کیا لیکن 294 کے مجموعی اسکور پر حارث رؤف نے ان کی 102رنز کی اننگز کا خاتمہ کردیا۔
گریگری نے ایک مرتبہ پھر بہترین بلے بازی کا مظاہرہ کیا اور کیریئر کی بہترین 77 رنز کی اننگز کھیلنے کے بعد وہ بھی حارث کو وکٹ دے بیٹھے۔
7 وکٹیں گرنے کے باوجود ہدف کے تعاقب میں انگلینڈ کو کوئی مشکل پیش نہ آئی اور بریڈن کارس اور کریگ اوورٹن نے اپنی ٹیم کو دو اوور قبل ہی شاندار فتح سے ہمکنار کرا دیا۔
اس فتح کے ساتھ ہی ناتجربہ کار انگلش ٹیم نے ون ڈے سیریز میں 0-3 سے کلین سوئپ مکمل کر لیا۔
پاکستان کی جانب سے حارث رؤف چار وکٹیں لے کر سب سے کامیاب باؤلر رہے جبکہ شاداب خان نے دو وکٹیں اپنے نام کیں۔
جیمز ونس کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا جبکہ سیریز کے بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ ثاقب محمود لے اڑے۔