دنیا بھرمیں خواتین کی بڑی تعداد مختلف طرح کے فیشن کو اپناتی ہیں ان ہی میں بالوں کو ڈائی اور اسٹریٹ یعنی سیدھا کرنا شامل ہیں۔
حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایسےکیمیکل جو بالوں کو سیدھا کرنے کے لیے استعمال کئے جاتے ہیں یوٹرن یعنی بچہ دانی کے کینسر کا سبب بن رہے ہیں۔
سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ ایک نایاب یوٹرن کینسر ریاستہائے متحدہ امریکا میں تیزی سے پھیل رہا رہے، خاص طور پر سیاہ فارم خواتین میں، اور اس کے لیے بالوں کو سیدھا کرنے والے کیمیکل کو ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔
تقریباً 11 سال تک جاری رہےنے والی اس تحقیق میں، یو ایس نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف انوائرنمنٹل ہیلتھ سائنسز کے محققین نے تحقیق کے لیے 33,947 شرکاء کا ندراج کرکے 11 سال تک جزیہ کیا۔اس دوران یوٹرن کینسر کے 378 کیسز سامنے آئے۔
جن لوگوں نے سروے سے پہلے 12 مہینوں میں بالوں کو سیدھا کرنے والے کیمیکل یا پروڈکٹ کا استعمال کیا تھا ان میں بعد میں بیضہ دانی کے کینسر کی تشخیص ہونے کا امکان 155 فیصد زیادہ تھا، بہ نسبت ایسے لوگوں کے جنہوں نے یہ کیمیکل استعمال نہیں کئے تھے۔
بالوں کو سیدھا کرنے والے کیمیکلز خواتین میں سرطان کا سبب بننے لگے، تحقیق
دنیا بھرمیں خواتین کی بڑی تعداد مختلف طرح کے فیشن کو اپناتی ہیں ان ہی میں بالوں کو ڈائی اور اسٹریٹ یعنی سیدھا کرنا شامل ہیں۔
حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایسےکیمیکل جو بالوں کو سیدھا کرنے کے لیے استعمال کئے جاتے ہیں یوٹرن یعنی بچہ دانی کے کینسر کا سبب بن رہے ہیں۔
سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ ایک نایاب یوٹرن کینسر ریاستہائے متحدہ امریکا میں تیزی سے پھیل رہا رہے، خاص طور پر سیاہ فارم خواتین میں، اور اس کے لیے بالوں کو سیدھا کرنے والے کیمیکل کو ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔
تقریباً 11 سال تک جاری رہےنے والی اس تحقیق میں، یو ایس نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف انوائرنمنٹل ہیلتھ سائنسز کے محققین نے تحقیق کے لیے 33,947 شرکاء کا ندراج کرکے 11 سال تک جزیہ کیا۔اس دوران یوٹرن کینسر کے 378 کیسز سامنے آئے۔
جن لوگوں نے سروے سے پہلے 12 مہینوں میں بالوں کو سیدھا کرنے والے کیمیکل یا پروڈکٹ کا استعمال کیا تھا ان میں بعد میں بیضہ دانی کے کینسر کی تشخیص ہونے کا امکان 155 فیصد زیادہ تھا، بہ نسبت ایسے لوگوں کے جنہوں نے یہ کیمیکل استعمال نہیں کئے تھے۔
Advertisement
اسی تناظر میں محققین کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے کبھی بالوں کو سیدھا کرنے والی مصنوعات استعمال نہیں کیں، ان کی 70ویں سالگرہ تک بیضہ دانی کے کینسر کی تشخیص ہونے کا امکان 1.64ا فیصد ہو گا۔ یہ تعداد ان لوگوں میں 4.05 فیصد تک بڑھ جاتی ہے جو اکثر اپنے بالوں کو کیمیکل طریقے سے سیدھا کرتے ہیں ، جو کہ کافی حد تک خطرناک بات ہے۔
کے این آئی ای ایچ ایس کے محققین کا کہنا ہے کہ ’’یہ نتائج بالوں کو سیدھا کرنے والی مصنوعات کے استعمال اور یوٹرن کےکینسر کے درمیان تعلق کا پہلا وبائی امراض کا ثبوت ہیں‘‘۔
حالیہ مطالعے سے سامنے آنے والے یہ نتائج کافی تشویشناک ہیں جو کہ بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والے کیمیکلز سے منسلک ہیں یہ اینڈوکرائن کے سسٹم میں خلل ڈالتے ہیں۔ یہ سسٹم جسم میں میسنجر کے طور پر کام کرتے ہیں جو ہارمونز کو اپنے اعضاء سے جوڑتے ہیں۔
ایسٹروجن اور پروجیسٹرون جیسے اضافی ہارمونز کو ماضی میں بیضہ دانی کے کینسر سے جوڑا گیا ہے، اور بالوں کی بہت سی مصنوعات ان قدرتی ہارمونز کی نقل کر سکتی ہیں اور ان کے رسیپٹرز سے منسلک ہو سکتی ہیں۔
واضح رہے کہ ماضی میں بیضہ دانی کے کینسر کو جسم کے دو اہم ہارمونز ایسٹروجن اور پروجیسٹرون کے اضافے سے جوڑا جاتا تھا۔تاہم اب بالوں کی بہت سی مصنوعات ان قدرتی ہارمونز کی نقل کر سکتی ہیں اور ان کے رسیپٹرز سے منسلک ہو سکتی ہیں۔
2018 میں، محققین کو بالوں کی 18 آزمائشی مصنوعات میں اینڈوکرائن میں خلل ڈالنے والے کیمیکلز ملے۔ مزید یہ کہ، شناخت کیے گئے کیمیکلز میں سے 84 فیصد پروڈکٹ لیبلز پر درج نہیں تھے، اور 11 پروڈکٹس میں ایسے کیمیکلز شامل تھے جو یورپی یونین کے کاسمیٹکس ڈائریکٹیو کے تحت ممنوع ہیں یا کیلیفورنیا کے قانون کے تحت ریگولیٹ ہیں۔
فی الحال، امریکہ میں وفاقی ضوابط صرف اس وقت ایسٹروجن ریسیپٹر کی سرگرمی کی جانچ کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں، اور جب بات کیڑے مار ادویات اور پینے کے پانی کی آلودگی کی ہو۔ تو بالوں کی مصنوعات کو نظر انداز کردیا جاتا ہے اور یہی عمل صحت عامہ کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔
2019 میں، این آئی ایچ کی طرف سے فنڈ کیے گئے ایک مطالعے کے نتائج کے مطابق بالوں کو مستقل رنگنے اور سیدھا کرنے والے کیمیکلز چھاتی کے کینسرکے خطرے کو کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔خاص طور پر سیاہ فام خواتین میں جو اکثر یہ کام کرتی ہیں۔
2021 میں، ایک فالو اپ مطالعہ بھی کیا گیا جس میں انکشاف ہوا کہ بالوں کو مستقل رنگنے اور سیدھا کرنے والے کیمیکلز بھی بیضہ دانی کے کینسر کے خطرے کو بہت زیادہ بڑھا دیتے ہیں۔
اب یوٹرن کینسر کو بھی اس فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ کینسر کی اس نئی اور مہلک قسم کے مطالعے میں نسلی گروہوں کے درمیان فرق کی نشاندہی نہیں کی گئی، لیکن مصنفین نے نوٹ کیا کہ چونکہ سیاہ فام خواتین چھوٹی عمروں، زیادہ شرحوں اور زیادہ ارتکاز میں بالوں کو سیدھا کرنے والی مصنوعات استعمال کرتی ہیں، اس لیے ان کے لیے اس بیماری کے خطرات زیادہ ہو سکتے ہیں۔ ایک تحقیق میں پتا چلا ہے کہ 89 فیصد افریقی امریکی خواتین نے کیمیکل ریلیکس یا سٹریٹنرز استعمال کرنے کی اطلاع دی۔
این آئی ایچ کے محققین ابھی تک یہ معلوم کر رہے ہیں کہ بالوں کی مصنوعات میں کون سے مخصوص کیمیکلز ہیں جو سرطان پیدا کرنے والے اثرات کی وضاحت کر سکتے ہیں، جبکہ پیرابینز، پیتھالیٹس اور فارملڈہائیڈز سرکردہ مشتبہ کیمیکلز میں سے ہیں۔
انسانی سر کی جلدبھی جسم کے دیگر حصوں کی نسبت آسانی سے ایسے کیمیکلز کو جذب کر لیتی ہے، بالوں کو اسٹریٹ کرنے کے لیے اسٹریٹنر کا استعمال یا بلو ڈرائینگ بالوں میں ان کیمیکلز کے جذب کرنے کی صلاحیت میں کئی گنا اضافہ کر دیتے ہیں جس سے ممکنہ طور پر زیادہ خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
چونکہ جسمانی سرگرمی کا تعلق جنسی سٹیرایڈ ہارمونز میں کمی اور کم دائمی سوزش کے ساتھ ہے، اس لیے زیادہ جسمانی سرگرمی والی خواتین رحم کے کینسر کے لیے دیگر خطرے والے عوامل کے لیے کم حساس ہو سکتی ہیں۔
امریکہ میں تقریباً نصف خواتین نے کسی نہ کسی وقت مستقل بالوں کا رنگ استعمال کیا ہے، اور ہموار کرنے والے کیراٹین ٹریٹمنٹ اور برازیلین بلو آؤٹ زیادہ مقبول ہو رہے ہیں۔
ہیئر ڈریسرز اور ان کے کلائنٹس یہ جاننے کے لیے کوشاں ہیں کہ یہ مصنوعات ان کی صحت پر کیسے اثرانداز ہورہی ہیں۔ یہ مطالعہ جرنل آف دی نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ میں شائع ہوا ہے۔