طالبان کی جانب سے اتوار کو افغانستان کا اقتدار دوبارہ حاصل کرنے کے بعد افغانستان کے جھنڈے کو اپنے سفید جھنڈے سے تبدیل کردیا جس پر کلمہ طیبہ ’لاَ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲ ‘‘ تحریر ہے۔
غیر ملکی خبررساں ادارے الجزیرہ کے مطابق ،گزشتہ روز افغان پرچم کو ہٹانے کے بعد کم از کم دو افغان شہروں میں احتجاج شروع ہو گیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ، مشرقی شہر جلال آباد کے اندر کچھ مرد اور خواتین پر مشتمل ہجوم افغانستان کا پرچم لہرا کر ” ہماری جھنڈا ہماری پہچان” کے نعرے لگارہے تھے اور مظاہرے کررہے تھے جس کے بعد طالبان کی جانب سے ایک ہجوم پر فائرنگ سے کم از کم تین افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب افغانستان کا جھنڈا تبدیل ہوا ہے۔ گزشتہ ایک صدی سے زائد عرصے قبل انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد افغانستان کا جھنڈا 18 سے زائد مرتبہ تبدیل ہوچکا ہے۔
ایک مؤقر ویب سائٹ کے مطابق افغانستان کے پرچم کے مکمل سیاہ رنگ میں تبدیلی 1901 میں کی گئی تھی۔ فلیگ آف دی ورلڈ نامی ویب سائٹ کے مطابق 1901 میں انگریزوں سے آزادی کے بعد افغانستان کے پرچم میں تبدیلی کی گئی اور مکمل سیاہ رنگ کے پرچم کے درمیان سفید رنگ شامل کیا گیا۔
بائرٹ کے مطابق 1919 میں جب امیر عبدالرحمان کے بیٹے امیر حزب اللہ کو قتل کیا گیا تو حزب اللہ کے بیٹے امیر امان اللہ خان نے 1919 میں افغانستان کو انگریزوں سے آزاد کروا کر ایک خودمختار ریاست کا اعلان کیا۔
امان اللہ خان نے اس وقت پرچم میں تبدیلی کی اورشاہی نشان کو تبدیل کرکے نئی قومی نشانی کو شامل کیا جب کہ منبر و مہراب کی نشانی کو اسی طرح رہنے دیا۔ اس وقت پرچم کی سفید فیلڈ کے اوپر شاہی ٹوپی کی ایک نشانی کا اضافہ کیا گیا جب کہ خلافت عثمانیہ کے پرچم سے متاثر ہو کر سفید فیلڈ کے اردگرد آٹھ کونوں پر مشتمل کرنوں کا دائرہ بھی بنایا گیا۔
ویب سائٹ کی تحقیق کے مطابق امان اللہ جب افغانستان کے بادشاہ بنے تو انہوں نے پرچم میں مزید تبدیلی کا فیصلہ کیا۔
فیلگ آف دی ورلڈ ویب سائٹ کے مطابق پرچم کے پس منظر کو سیاہ رنگ میں رہنے دیا گیا اور مسجد کی نشانی کو بھی اسی طرح چھوڑ دیا گیا لیکن مسجد کے اردگر شاہ بلوت اور لورل کی ٹہنیوں کے گل دستے کو دکھایا گیا اور دونوں ٹہنیوں کو ایک ربن سے جوڑ دیا گیا۔
بائرٹ کے مطابق امان اللہ 1928 میں جب یورپ کے دورے سے واپس آئے تو انہوں نے پرچم میں بڑی تبدیلی اورنیا ڈیزائن بنانے کا فیصلہ کیا۔
نئے پرچم میں پہلی مرتبہ سرخ، سبز اور سیاہ رنگ دکھایا گیا۔ اس پرچم میں سیاہ رنگ ماضی یعنی جنگوں کے دور، سبز کو امن اور امید کے رنگ اور سرخ کو افغانستان کی آزادی کے لیے بہائے گئے خون کی علامت کے طور پر دکھایا گیا۔
پرچم کے نئے ڈیزائن میں درمیان میں ایک پہاڑ بھی دکھایا گیا تھا جس پر سورج کی کرنیں موجود تھیں جس کا مطلب نئی سحر تھا۔ پرچم کے درمیان میں گندم کے خوشے اور ساتھ میں سورج کی کرنوں کے ساتھ ستارے کو بھی دکھایا گیا تھا جب کہ اس کے اوپر اللہ اور پیغمبر اسلام کا نام بھی پہلی مرتبہ لکھا گیا۔
تاریخ میں درج ہے کہ ابھی سبز، سرخ اور سیاہ رنگ کے پرچم کو ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ اس وقت کے بادشاہ امان اللہ خان کو ان کے اپنے ہی بھائی عنایت اللہ نے اقتدار سے علیحدہ کردیا مگر عنایت اللہ کے اقتدار سنبھالنے کے تین دن بعد ہی ایک تاجک وار لارڈ بادشاہ ساکو (سقہ)نے ان کو اقتدار سے بیدخل کیا اور حبیب اللہ غازی کو امیر بنا دیا لیکن پھر امیر امان اللہ خان کے چچا نادر خان نے حبیب اللہ کو اقتدار سے علیحدہ کیا۔ نومبر1929 میں انہیں گولی مار دی گئی۔
اس دور میں جو پرچم استعمال کیا گیا وہ حبیب اللہ غازی نے متعارف کیا تھا جس میں عمودی سمت میں سیاہ، سرخ اور سفید رنگ استعمال کیا گیا تھا۔ پرچم میں اس کے علاوہ کوئی دوسری نشانی نہیں تھی۔
تحقیق کے مطابق نادر خان جب بادشاہ کی کرسی پر براجمان ہوئے تو انہوں نے اکتوبر 1931 میں افغانستان کے نئے آئین پر دستخط کیے لیکن انہیں امان اللہ کے بھتیجے کے ایک حمایتی نے تقسیم انعامات کی ایک تقریب میں قتل کردیا۔
نادر خان نے اپنے دور حکومت میں امان اللہ خان دور کے پرچم کو دوبارہ متعارف کیا مگر پرچم کے اندر بنے نشانات کے ارد گرد بنی کرنوں کو بیضوی شکل سے دوبارہ گول کر دیا اور اسے دوبارہ خلافت عثمانیہ کے پرچم پر بنے گول دائرے کی طرح بنا دیا گیا۔
نادر شاہ (خان) کے دور حکومت میں آئین کے اندر باقاعدہ پرچم کے حوالے سے شقیں شامل کی گئیں کہ افغانستان کا پرچم کس طرح اور کس طرح کے ڈیزائن میں ہوگا؟
1931 میں سرخ، سیاہ اور سبز پرچم میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں۔ اس وقت پرچم کی سفید فیلڈ میں مسجد کے گرد گندم کے خوشے کے گلدستے پر عربی زبان میں افغانستان کا نام لکھا گیا جب کہ فارسی زبان میں وہ تاریخ لکھی گئی جب نادر شاہ نے اقتدار سنبھالا۔
1973 میں جب ظاہر شاہ کو بیدخل کیا گیا اور ظاہر کے رشتہ دار سردار محمد داؤد نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے پرچم میں کوئی خاص تبدیلی نہیں کی لیکن پرچم میں گندم کے خوشے کے گلدستے پر لکھے گئے نادر شاہ کی بادشاہت کی تاریخ کو ہٹا دیا گیا۔
سردار داؤد نے 1974 میں ایک جمہوری افغانستان کے پرچم کا باقاعدہ اجرا کیا جو پہلے کی طرح سرخ، سیاہ اور سبز رنگ پر مشتمل تھا جس کے درمیان میں سفید رنگ سے مسجد اور منبر و مہراب بنایا گیا تھا جب کہ مسجد کے گرد گندم کے خوشے سے بنایا گیا ایک گلدستہ بنایا گیا اور اسی خوشے کے درمیان میں ایک عقاب بنایا گیا۔
خوشے کے نچلے حصے پر پشتو زبان میں ’د افغانستان جمہوری دولت‘ یعنی جمہوریہ افغانستان لکھا گیا اور وہ تاریخ بھی لکھی گئی جس دن افغانستان کی جمہوری ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا۔ نئے پرچم میں سبز رنگ زیادہ تھا جب کہ سیاہ اور سرخ کو ایک ہی سائز میں بنایا گیا تھا۔
محمد داؤد کے بعد افغانستان مین سویت یونین کی حمایت یافتہ کمیونسٹ حکومت کی بنیاد رکھی گئی اور نور محمد ترکئی کو صدر بنا دیا گیا۔
افغانستان کا نام ’ڈیمو کریٹک ریپبلک آف افغانستان‘ میں تبدیل کردیا گیا۔ اس دور میں محمد داؤد کے دور کے پرچم کے درمیان سے تمام نشانات ہٹا دیے گئے اور پرچم کو صرف سرخ، سیاہ اور سبز رنگ تک محدود کردیا گیا۔
انقلاب سور کے بعد نور محمد ترکئی کی کمیونسٹ پارٹی نے سبز، سیاہ اور سرخ رنگ کے پرچم کو تبدیل کرکے اسے مکمل طور پر سرخ رنگ سے تبدیل کردیا اور پرچم کے ایک کونے پر نور محمد ترکئی کی سیاسی جماعت ’خلق‘ کا نام لکھ دیا گیا جب کہ جماعت کے نام کے اردگرد گندم کے خوشے کا گلدستہ بنایا گیا اور اس کے اوپر پشتو زبان میں ’د افغانستان جمہوریت ڈیموکریٹک‘ یعنی ’ڈیموکریٹک ریپبلک آف افغانستان‘ لکھا گیا تھا۔ اس وقت ساتھ میں ’دو سور انقلاب‘ یعنی ’انقلاب سور‘ تاریخ سمیت لکھا گیا۔
دسمبر 1979 میں سوین یونین نے جب افغانستان پر چڑھائی کی تو بابرک کارمل کو اقتدار سونپا گیا اور انہوں نے افغانستان کے پرچم میں موجود تین پرانے رنگوں سبز، سیاہ اور سرخ کو دوبارہ متعارف کروایا۔
پرچم کے اندر گندم کے خوشے سے بنا گلدستہ بھی دوبارہ بحال کیا جب کہ اس کے اندر سورج کی کرنیں بھی علامتی طور پر دکھائی گئیں۔
اسی طرح منبر و مہراب کی علامت کے ساتھ ایک کتاب کی علامت بھی دکھائی گئی اور ساتھ میں ان علامات کے اوپر سرخ رنگ میں ستارہ بھی انقلاب کے طور پر دکھایا گیا تھا۔
1987میں جب ڈیموکریٹک ریپبلک کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا تو پرچم میں معمولی سی تبدیلی کی گئی اور کتاب اور سرخ رنگ کا ستارہ ہٹایا گیا جب کہ رنگوں اور علامات کے سرکاری معنے بھی تبدیل کیے گئے۔
سویت یونین کو افغانستان میں شکست کے بعد 1992 میں عارضی طور پر سیاہ، سفید اور سبز رنگ پر مبنی پرچم کا اجرا کیا گیا۔ اس وقت سیاہ رنگ کے اوپر اللہ اکبر جب کہ سفید کے اوپر کلمہ طیبہ لکھا گیا۔
سویت یونین کو شکست کے بعد ایک اور پرچم کا اجرا کیا گیا اور افغانستان کو اسلامی ریاست افغانستان کہا گیا۔ یہ پرچم بھی سفید، سیاہ اور سبز رنگ پر مشتمل تھا لیکن پرچم کے اوپر علامات کو تبدیل کیا گیا۔
پرچم کے اوپر مسجد اور منبر و مہراب اور اس کے اوپر ’لاَ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲ ‘‘ لکھا گیا۔ ان تمام علامات کو گندم کے خوشے کے گلدستے میں بند کیا گیا۔
افغان طالبان جب اقتدار میں آئے تو کچھ عرصے تک انہوں نے اپنے پرچم کا رنگ بالکل سفید رکھا تھا۔
افغانستان پر 1996 میں طالبان نے قبضے کے بعد اپنی حکومت کو امارت اسلامی افغانستان کا نام دیا۔ طالبان کے اس وقت کے سربراہ ملا محمد عمر کو حکومت کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ اس دور میں طالبان نے افغانستان کا پرچم بھی تبدیل کردیا۔ یہ پرچم مکمل طور سفید تھا اور اس کے اوپر ’لاَ اِلٰہَ اِلَّا ﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲ ‘‘ لکھا گیا۔
اسی دوران ایک اور پرچم بھی افغانستان میں نظر آنا شروع ہوا، جو سفید رنگ کا تھا لیکن اس کے اوپر علامات مختلف تھیں۔
اس پرچم پر گندم کے خوشے کا گلدستہ بنایا گیا تھا اور ساتھ میں کلمہ طیبہ لکھا گیا تھا جب کہ کلمے کے ساتھ امارت اسلامی افغانستان بھی لکھا گیا تھا۔ اسی طرح علامات کے اوپر کتاب کی علامت موجود تھی جس پر اللہ اور رسول لکھا گیا تھا۔
یہ پرچم اب بھی طالبان کے مختلف اعلامیوں اور ویب سائٹ پر دیکھا جا سکتا ہے، تاہم اب اس میں تھوڑی تبدیلی کی گئی ہے۔
نیا پرچم سفید رنگ کا ہے اور ‘د افغانستان اسلامی امارت‘ یعنی امارت اسلامیہ افغانستان کو نیچے سیاہ رنگ سے لکھا گیا ہے۔
ویب سائٹ کے مطابق افغانستان میں جب طالبان حکومت کا خاتمہ کیا گیا تو اس وقت ملک کا سرکاری کوئی پرچم ریکارڈ پر موجود نہیں تھا لیکن سیاہ، سرخ اور سبز رنگ کا پرچم دنیا کے مختلف سفارتخانوں میں استعمال کیا جاتا تھا۔
فلیگ آف دی ورلڈ نامی ویب سائٹ کے مطابق 2001 میں برہان الدین ربانی کے دور صدارت میں جرمنی میں ایک پرچم دیکھا گیا تھا جو سبز، سفید اور سیاہ رنگ پر مشتمل تھا جس پر علامات اور کلمہ طیبہ لکھا گیا تھا۔
طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب حامد کرزئی صدر منتخب ہوئے تو کچھ عرصے بعد سرکاری پرچم 1931 کے آئین میں موجود پرچم کی طرح بحال کیا گیا لیکن اس میں معمولی سی تبدیلی کی گئی۔
تبدیلی یہ کی گئی کہ پرچم پر موجود علامات کو مکمل طور پرسرخ حصے پر بنائے گئے کلمہ طیبہ اور اللہ اکبر کو علامات کے اوپر لکھا گیا۔
سابق افغان صدر حامد کرزئی نے نئے پرچم کو 2004 میں نئے آئین کے مطابق بنا دیا جو تقریباً 1931 میں نادر شاہ کے دور میں بنائے گئے آئین میں پرچم کے ڈیزائن سے ملتا جلتا ہے۔
اس میں یہ تبدیلی کی گئی کہ منبر اور مہراب کی علامات کو اسی پرانے طریقے سے رہنے دیا گیا لیکن اس کی دونوں جانب افغانستان کے چھوٹے سائز کے پرچم لگا دیے گئے۔ پرچم میں اوپرکی جانب درمیانی حصے میں کلمہ لکھا گیا اور ساتھ میں سورج کی کرنیں دکھائی گئیں۔
انڈیپنڈنٹ اردو کے مطابق اگست 2021 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد اب دیکھنا ہوگا کہ وہ افغانستان کے قومی پرچم کو تبدیل کریں گے یا نہیں؟ لیکن ابھی تک اس حوالے سے طالبان کی جانب سے کوئی مؤ قف سامنے نہیں آیا ہے۔