افغان طالبان نے نیا رعایتی اور عبوری کسٹم ٹیرف جاری کر دیا جس کے بعد طورخم بارڈر سے تجارتی اشیاء کی آمد ورفت بحال ہوگئی اور گزشتہ 24گھنٹوں میں 700سے زائد گاڑیوں نے بارڈر پاس کیا۔
دوسری جانب کابل میں منگل کو بھی کرنسی اور صرافہ مارکیٹیں بند رہیں لیکن لوگوں کی باہمی لین دین میں افغانی کرنسی کے نرخ 25فیصد کم رہے۔
پاک افغان تجارت سے وابستہ تاجروں کے مطابق کابل میں اشرف غنی حکومت کے خاتمے کے بعد پاک افغان طورخم بارڈر پر غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگئی تھی اور سینکڑوں ٹرک دونوں جانب مختلف شاہراہوں پر کھڑے ہوگئے تھے تاہم بعد ازاں افغان طالبان نے کسٹم ٹیرف جاری کر دیا اور اس کے تحت وصولی کرنے لگے جس کے بعد آمد ورفت بحال ہوگئی۔
کسٹم نرخنامے میں 159اشیاء درج ہیں جس میں غیر معمولی طور پر رعا یت دی گئی ہے اور کم سے کم رعایت 50فیصد جب کہ زیادہ سے زیادہ 90فیصد ہے۔
سیمنٹ سفید پر پہلے 2450افغانی فی ٹن لیے جاتے تھے اب 85فی صد کم کرکے 368روپے لیے جا رہے ہیں، پیٹرول پر 50فیصد کمی کی گئی ہے، چینی پر 90فیصد ڈیوٹی کم کی گئی ہے، پلاسٹک کے برتن پر ڈیوٹی میں 80فیصد اور شیشے کے برتن پر 70فیصد کمی کی گئی ہے۔ ٹیرف میں تعمیراتی میٹریل، ادویات اور کھانے پینے کی اشیاء میں زیادہ رعایت دی گئی ہے جب کہ صابن، شیمپو اور دیگر اشیاء میں رعایت کی شرح کم ہے۔ تاجروں کے مطابق یہ نرخنامہ طورخم اور چمن سمیت تمام بارڈرز کے لیے ہیں۔
اس سے قبل اسپین بولدک پر قبضہ کرنے کے بعد افغان طالبان نے چمن بارڈر کے لیے بھی کسٹم ٹیرف جاری کیا تھا جس کے بعد تاجروں کی جانب سے تحفظات جاری کیے گئے تھے کہ چمن بارڈر پر قندھار اور دیگر علاقوں میں طالبان ٹیکس لے رہے ہیں جب کہ دیگر علاقوں میں افغان حکومت بھی ٹیکس لے رہی ہے جس کی وجہ سے انہیں ڈبل ٹیکس دینا پڑ رہا ہے تاہم اب اس نئے صورتحال میں ڈبل ٹیکس ختم ہونے کے ساتھ ساتھ ٹیکس میں رعایت پر تاجروں کی جانب سے اطمینان کا اظہار کیا جارہا ہے تاہم بد امنی کی وجہ سے وہ قدرے پریشان بھی ہیں۔
پاک افغان تجارت سے منسلک شاہد حسین کے مطابق طورخم بارڈر پر تجارتی اشیاء کی آمد ورفت بحال ہوگئی ہے اور گزشتہ 24گھنٹوں میں 727گاڑیوں کی آمدورفت ہوئی ہے جس میں پاکستان سے ایکسپورٹ کرنے والی گاڑیوں کی تعداد372 اور افغانستان سے آنے والی گاڑیوں کی تعداد355 ہے لیکن افغانستان سے آنے والی گاڑیوں میں 116خالی گاڑیاں بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب کابل میں غیر یقینی کیفیت منگل کو بھی برقرار رہی اور صرافہ وکرنسی مارکیٹیں بند رہیں تاہم لوگوں کے باہمی لین دین میں افغانی کرنسی کی قدر میں کمی دیکھنے میں آئی۔ کابل میں مقیم ایک صحافی کے مطابق جب اشرف غنی کی جانب سے مستعفی ہونے کی افواہیں گردش کر رہی تھیں اس وقت ڈالر کی قدر 80افغانی سے بڑھ کر 100افغانی ہوگئی تھی لیکن بعد میں افغانی کرنسی معمول پر آگئی لیکن اشرف غنی حکومت کے خاتمے کے بعد لوگ باہمی طور پر 80سے90افغانی کے حساب سے ڈالر کی لین دین کر رہے ہیں