افغانستان میں 20 سالہ طویل جنگ کے بعد امریکا نے بالآخر ہتھیار ڈالے اور انخلا شروع کیا۔
امریکی انخلا شروع ہوتے ہی طالبان، جو 2001 میں اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سے برسر پیکار تھے، برق رفتاری سے مختلف اضلاع پر قبضہ کرتے ہوئے کابل کے صدارتی محل تک پہنچ گئے۔
فی الحال طالبان نے حکومت سازی اور دیگر سیاسی امور سے متعلق اعلان نہیں کیا اور صرف عالمی برادری سے کہا ہے کہ وہ تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات اور مل کر چلنا چاہتے ہیں۔ طالبان نے ملک میں موجود تمام افراد کے لیے عام معافی کا بھی اعلان کیا ہے۔
ممکن ہے کہ آئندہ چند روز میں طالبان افغانستان میں حکومتی ڈھانچے کا اعلان کریں۔ قوی امکان اس بات کے ہیں کہ طالبان پارلیمانی یا صدارتی نظام حکومت کے بجائے خلافت کو ترجیح دیں گے۔
طالبان کی تاریخ
اگر ایسا ہوتا ہے تو کون سے طالبان رہنما ہیں جو اہم عہدوں پر فائز ہوسکتے ہیں؟ آئیے طالبان کی اعلیٰ قیادت میں شامل چند رہنماؤں کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہیبت اللہ اخونزادہ
ہیبت اللہ اخونزادہ اسلامی قوانین کے اسکالر اور طالبان کے سپریم لیڈر ہیں جو گروپ کے سیاسی، مذ ہبی اور عسکری امور کے معاملات پر حتمی اختیار رکھتے ہیں۔
اخونزادہ نے سابق سپریم لیڈر ملا اختر منصور کی 2016 میں پاک افغان سر حد کے قریب امریکی ڈرون حملے میں موت کے بعد اختیارات سنبھالے تھے۔
ان کےساتھیوں اور طلبہ نے برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کو بتایا کہ مئی 2016 میں اخونزادہ کے اچانک غائب ہونے سے قبل انہوں نے 15 سال تک مبینہ طور پر جنوب مغربی پاکستان کے قصبے کچلاک میں ایک مسجد میں امامت اور تبلیغ کی۔
اندازہ کیا جاتا ہے کہ ان کی عمر تقریباً 60سال ہے جبکہ ان کا ٹھکانہ اب بھی معلوم نہیں ہے۔
ملا محمد یعقوب
ملا محمد یعقوب طالبان کے بانی ملا عمر کے صاحبزادے ہیں۔ محمد یعقوب گروپ کی فوجی کارروائیوں کی نگرانی کرتے ہیں جبکہ مقامی رپورٹس کے مطابق ملا محمد یعقوب افغانستان میں ہی موجود ہیں۔
ملا محمد یعقوب کا نام عہدوں کے لیے جاری کشمکش کے دوران تحریک طالبان کے امیر کے طور پر تجویز کیا گیا تھا لیکن2016 میں انہوں نے خود ہی ہیبت اللہ اخونزادہ کو تحریک کی قیادت کے لیے آگے بڑھایا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کے پاس میدان جنگ کے تجربے کی کمی ہے اور وہ عمر میں بھی چھوٹے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کی ان کی عمر 30 سال سے کچھ زائد ہے۔
سراج الدین حقانی
سراج الدین حقانی مجاہدین کمانڈر جلال الدین حقانی کے بیٹے ہیں، وہ حقانی نیٹ ورک کی قیادت کرتے ہیں جو ایک انتظامی طور پر کمزور گروپ ہے اور یہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر طالبان کے مالی اور عسکری اثاثوں کی نگرانی کرتا ہے۔
حقانی نیٹ ورک کے بارے میں کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ انہوں نے افغانستان میں خودکش بم دھماکے متعارف کروائے تھے اور ان پر افغانستان میں کئی ہائی پروفائل حملوں کا الزام لگایا جاتا ہے جن میں کابل کے ہوٹل پر دھاوا، اس وقت کے صدر حامد کرزئی پر قاتلانہ حملہ اور بھارتی سفارت خانے پر خود کش حملہ شامل ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ سراج الدین حقانی کی عمر تقریباً 40 سے 50 سال کے درمیان ہے جبکہ ان کا ٹھکانہ بھی کسی کو معلوم نہیں ہے۔
ملا عبد الغنی برادر
ملا عبد الغنی برادر طالبان کے شریک بانیوں میں سے ایک ہیں، ملا عبدالغنی برادر اب طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ اور دوحہ میں اس گروپ کی مذاکراتی ٹیم کا حصہ ہیں جو سیاسی معاہدے کو حتمی شکل دینے، افغانستان میں جنگ بندی اور دیرپا امن کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
یہ مذاکراتی عمل حالیہ مہینوں میں اہم پیش رفت حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
ملا عمر کے انتہائی قابل اعتماد کمانڈروں میں سے ایک ملا عبدالغنی برادر کو 2010 میں پاکستان کے شہر کراچی میں سکیورٹی فورسز نے گرفتار کرلیا تھا جنھیں 2018 میں رہا کیا گیا۔
شیر محمد عباس ستانکزئی
طالبان کی حکومت ختم ہونے سے قبل شیر محمد ستانکزئی حکومت میں نائب وزیر تھے۔ ستانکزئی تقریباً ایک دہائی تک دوحہ میں مقیم رہے اور 2015 میں دوحہ میں گروپ کے سیاسی دفتر کے سربراہ بنے۔
انہوں نے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات میں حصہ لیا اور کئی ممالک کے سفارتی دوروں پر طالبان کی نمائندگی کی۔
عبدالحکیم حقانی
عبدالحکیم حقانی طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ ہیں اور وہ طالبان کے سابق شیڈو چیف جسٹس بھی رہے۔
عبدالحکیم حقانی طالبان کی مذہبی اسکالرز کی طاقتور کونسل کے سربراہ ہیں اور ان کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہیبت اللہ اخونزادہ ان پر سب سے زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز طالبان نے افغان دارالحکومت کابل پر بھی قبضہ کرلیا ہے جس کے بعد وہاں موجود امریکی فوجی اور افغان صدر اشرف غنی سمیت متعدد اہم حکومتی عہدے دار ملک سے فرار ہوگئے ہیں۔
طالبان نے کابل کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد عام معافی کا اعلان کیا ہے اور عالمی برادری کو پیغام دیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ مل کر کام کرے۔
اس حوالے سے دنیا کے تمام ہی ممالک اپنی اپنی پالیسی ترتیب دے رہے ہیں کہ آیا طالبان کے اقتدار کو قبول کرنا چاہیے یا نہیں اور اسی حوالے سے پاکستان کی حکومت بھی غور و خوض کررہی ہے۔