ھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں انتظامیہ نے ہندوؤں کے رام نومی جلوس پر مبینہ پتھراؤ کے الزام میں مسلمانوں کے درجنوں مکانات اور دکانیں مسمار کر دیں۔ گجرات میں بھی ایک بار پھر تصادم کے واقعات پیش آئے ہیں۔
ہندوؤں کے بھگوان رام کی یوم پیدائش پر منعقد کیے گئے رام نومی جلوس کے دوران چار بھارتی ریاستوں میں تشدد کے واقعات پیش آئے تھے جن میں درجنوں افراد زخمی اور ایک شخص ہلاک ہوگیا تھا۔ کھرگون شہر میں کم از کم دس مکانات کو آگ لگا دی گئی تھی اور دو درجن سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے۔
اُدھر گجرات کے سابر کانٹھا ضلع میں بھی دو مختلف فرقوں کے درمیان پتھراؤ نے تصادم کی صورت اختیار کرلی تھی تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ اُس نے صورتحال پر قابو پالیا تھا۔
حکمران قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے وابستہ مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان نے رام نومی جلوس کے دن تصادم کے واقعات کے بعد فسادیوں کے خلاف کارروائی کے لیے ایک ٹریبونل قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
تاہم اگلے روز ضلع کھرگون کی انتظامیہ نے شہر کے پانچ علاقوں میں مسلمانوں کے مکانات اور دکانوں کو مسمار کرنے کی مہم شروع کر دی۔ کم از کم 45 مکانات اور دکانوں کو مسمار کیا جا چکا ہے جن میں 16 مکانات اور 29 دکانیں شامل ہیں۔
مسلم تنظیموں کا کہنا ہے کہ اِس سلسلے میں یک طرفہ طور پر درجنوں مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ جائیدادیں مسمار کرنے پر انتظامیہ سے سرکاری حکم نامے طلب کرنے والے افراد کو مارا پیٹا گیا۔
More houses belonging to poor Muslims being demolished in Khargone. pic.twitter.com/N3XYpyyhA4
— Sharjeel Usmani (@SharjeelUsmani) April 11, 2022
آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت کے صدر نوید حامد نے ریاستی حکومت سے سوال کیا ہے کہ کھرگون میں شرپسند ہندوؤں نے ایک مسجد پر بھی پتھراؤ کیا تھا تو کیا وہ یکساں قانون کے تحت شرپسندوں کے مکانات بھی اُسی طرح مسمار کرے گی جس طرح کسی قانونی اقدام کے بغیر مسلمانوں کی جائیداد کو مسمار کیا جا رہا ہے۔
تاہم کھرگون کے سب ڈویژنل مجسٹریٹ ملند ڈھوکے نے اپنی کارروائی کی تاویل پیش کی ہے کہ یہ مکانات اور دکانیں غیر قانونی تھیں۔ ان علاقوں سے پتھراؤ کی خبریں ملی تھیں جس کے بعد کارروائی کی گئی۔
مدھیہ پردیش کے سابق وزیراعلیٰ دگ وجے سنگھ نے بھی ایک ٹویٹ میں موجودہ وزیراعلیٰ شیو راج سنگھ سے پوچھا ہے کہ بھارت کے کس قانون میں اس بلڈوزر کلچر کی اجازت دی گئی ہے۔
متاثرہ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ پولیس اُن کے ہونے والے نقصانات کا مقدمہ درج نہیں کر رہی جبکہ شرپسندوں کے دائرکردہ مقدمات پر مسلم نوجوانوں بالخصوص سماجی کارکنوں کو گرفتار کرکے ان کے مکانات و دکانیں مسمار کی جا رہی ہیں۔