کرناٹک کی عدالت نے تعلیمی اداروں میں حجاب ممنوع قرار دے دیا ہے۔حجاب پر پابندی کا سرکاری فیصلہ جائز قرار دینے کے بعد طلبہ اب سپریم کورٹ میں اپیل کریں گے۔
منگل کو کرناٹک کی ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ریتو راج آواستھی نے فیصلے سناتے ہوئے بتایا کہ مسلم خواتین کی جانب سے حجاب پہننا لازمی مذہبی عبادات کا حصہ نہیں۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت کے پاس حق تھا کہ وہ یونی فارم سے متعلق گائیڈلائئنز جاری کرے۔ عدالت نے اس فیصلے سے متعلق تمام دائر درخواستیں مسترد کردی ہیں۔
کرناٹک میں اس عدالتی فیصلے سے قبل اسکولز اور کالجز بند کردئیے گئے تھے اور ریاست کے کچھ علاقوں میں عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کردی تھی تاکہ انتشار سے بچاجاسکے۔
Karnataka HC rules Hijab not essential religious practice of Islam, dismisses petitions challenging ban
Read @ANI Story | https://t.co/XsTgVZktbK#KarnatakaHijabRow #KarnatakaHighCourt pic.twitter.com/jqOTwvqFt4
— ANI Digital (@ani_digital) March 15, 2022
نیشنل کمیشن فار وویمن کی چئیرپرسن ریکھا شرما نے کہا ہے کہ کرناٹک ہائیکورٹ کے فیصلےکا خیرمقدم کرتےہیں۔ انھوں نے کہا کہ قرآن میں اس سلسلے کا کوئی حکم نہیں ہے۔ جب ایک طالبہ ادارے میں داخل ہوتی ہے تو ان پر لازم ہوتا ہے کہ وہ قواعد اور ضوابط کی پاسداری کریں۔
#HijabVerdict | I welcome the decision of the Karnataka High Court, as it is firstly not a religious practice, as per Quran. Secondly, when a student enters an institute, they must follow the rules & regulations…: Rekha Sharma, Chairperson, National Commission for Women pic.twitter.com/YDuu3JO9F1
— ANI (@ANI) March 15, 2022
I'm an ardent supporter of women's rights, I always say women can wear anything, anywhere, but if there's a uniform code in an institute, it must be followed. Students should not be divided into religion, caste, or creed. I hope they go back to classes: NCW Chairperson R Sharma pic.twitter.com/9vDsORpg76
— ANI (@ANI) March 15, 2022
بھارتی میڈیا کے مطابق مسلم طالبات نے تعلیمی اداروں میں نے حجاب پر لگائی جانے والی پابندی کو چیلنج کیا تھا، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ کوئی قانون انہیں حجاب کے استعمال سے منع نہیں کرتا۔
مسلم طالبات کہنا تھا کہ بھارت کے آئین میں مذہبی آزادی کے تحت حجاب پہننے پر پابندی نہیں اور کوئی تعلیمی ادارہ اسے پہننے سے نہیں روک سکتا۔
دوسری جانب بھارتی ریاست کرناٹک کی حکومت نے عدالت میں مؤقف اپنایا تھا کہ بھارت میں حجاب پہننے پر پابندی نہیں تاہم ادارے کے ڈسپلن کیلئے لڑکیوں کے حجاب پہننے پر پابندی لگائی گئی۔
جنوری میں کرناٹک کے ایک اسکول کی طالبات نے حجاب اُتارنے سے انکار کردیا تھا جبکہ 5 طالبات حجاب پر پابندی کا معاملہ لے کر عدالت چلی گئی تھیں، اس معاملے پر ریاست کے مختلف شہروں میں بڑے بڑے مظاہرے بھی ہوئے تھے جبکہ حجاب پر پابندی کے بعد بھارت میں طالبات کی بڑی تعداد نے اسکولوں کا بائیکاٹ کردیا۔
کرناٹک ہائیکورٹ کے جج نے تاحکم ثانی حجاب یا مذہبی علامت کا کوئی لباس پہننے پر پابندی لگاتے ہوئے اس حوالے سے لارجر بینچ بنانے کا حکم دیا تھا۔
فروری میں بھارت کی ریاست کرناٹک کے ایک کالج میں ہندو انتہاء پسند طالب علموں نے مہاتما گاندھی میموریل کالج میں حجاب پہنی طالبہ کو ہراساں کیا اور خلاف نعرے لگائے تھے، تاہم اس موقع پر نڈر اور بہادر مسلم طالبہ بھی ’’اللہ اکبر‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے ان کے سامنے ڈٹ گئی تھی، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوئی تھی۔
مسلم طالبہ مسکان کے ساتھ دنیا بھر سے اظہار یکجہتی کیا گیا اور سوشل میڈیا پر ’’اللہ اکبر‘‘ ٹاپ ٹرینڈ بن گیا تھا۔
ہراسانی کا نشانہ بننے والی مسلمان طالبہ کا واقعے کے بعد کہنا تھا کہ وہ ہمیشہ سے برقع پہنتی آئی ہیں مگر پہلے کالج پرنسپل نے اس پر کبھی اعتراض نہیں کیا، ہماری ترجیح ہماری تعلیم ہے، کپڑے کے ایک ٹکڑے کے پیچھے وہ ہمیں تعلیم کے حق سے محروم کر رہے ہیں.