ہمارے معاشرے میں دن بہ دن بیشتر بیماریوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، لیکن یہاں بیماریوں کی تعریف قدرے مختلف ہے۔ جنوبی ایشیاء کے ممالک میں ذیادہ تر جسمانی بیماری یعنی انسانی اعضاء میں خرابی کو بیماری تصور کیا جاتا ہے لیکن ذہنی بیماری یا نشونماء کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔جدید دور کے جدید مسائل نے انسانی دماغ کو اس قدر الجھا کر رکھ دیا ہے کہ لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی ڈپریشن، انزائٹی اور اسی طرز کی ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں۔ عام طور پر کچھ نہ کچھ ہمارے ذہنوں میں چل رہا ہوتا ہے لیکن ہم کسی نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس جا کر اپنی پریشانی کے بارے میں بات کرنے سے کتراتے ہیں کیونکہ ہمیں یہ خوف ہوتا ہے کہ لوگ ہمیں پاگل سمجھیں گے اور اسی خوف سے وہ سماجی دوری اختیار کرنا شروع ہوجاتے ہیں اور علاج کے بجائے اس بیماری میں مزید دھنستے چلے جاتے ہیں۔ ہمارےے ملک کے برخلاف مغربی ممالک میں اسے ایک عام بیماری کی طرح ٹریٹ کیا جاتا ہے اور باقاعدہ کائونسلنگ سیشنز کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ بروقت اس کیفیت پر قابو پایا جا سکے، جس کے نتائج آگے جاکر کظناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
کیونکہ ذہنی بیماریوں کا شعور یہاں کچھ کم ہے اس لئے اس بارے میں معلومات بھی لوگوں کے پاس کم ہے۔ ہم اکثر اوقات ایسے لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں جو ہم سے آنکھ ملا کر بات نہیں کرتے، یا ان کی کمیونیکشن بہت ذیادہ اچھی نہیں ہوتی یا وہ ذیادہ تر اکیلے رہنا پسند کرتے ہیں اور ہم انھیں یہ کہہ کر نظر انداز کردیتے ہیں کہ بہت شرمیلا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن دراصل وہ ایسی بیماری کا شکار ہوتے ہیں جس کے بارے میں لوگوں کو معلوم ہی نہیں ۔آٹزم ایک نشونمائی کمی ہے جو کسی شخص کی دوسرے لوگوں کے ساتھ بات چیت اور تعلقات پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کی خصوصیات میں سماجی تعلقات میں مشکل پیش آنا، گفتگو میں دقت، محدود اور بار بار ایک عمل دہرانا شامل ہیں۔ آٹزم کئی طریقوں سے اثر انداز ہو سکتی ہے۔ اس بیماری میں مبتلا کچھ لوگ اپنی روز مر ہ زندگی کے تمام امور آسانی سے انجام دے سکتے ہیں لیکن اس بیماری میں مبتلا کچھ لوگوں کو پڑھنے اور سیکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کی وجہ سے ان لوگوں کو زندگی بھر کے لیے ان امراض کے ماہر افراد کی ضرورت پڑ سکتی ہے آٹزم کی شرح مردوں میں خواتین کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔
آٹزم ذہنی ناہمواری کی وہ کیفیت ہے جو حالیہ تخمینہ کے مطابق ہر 10 ہزار میں سے 15 بچوں کو متاثر کرتی ہے۔ بچپن میں ہونے والا آٹزم تین ذہنی رویوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اس کے تحت سماجی رابطہ پیدا کرنے کی صلاحیت، زبان کو سیکھنے کی صلاحیت اور اپنے طور پر کھیل کھیلنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ آٹزم موجودہ زمانہ میں زیربحث ایک اہم موضوع ہے۔ اس ذہنی کیفیت کی سب سے پہلے ڈاکٹر لوکیز نے 1943ء میں نشاندہی کی تھی۔
آٹزم ایک اسپیکٹرم سینڈروم (Spectrum Syndrome) ہے جس سے یہ مراد لی جاسکتی ہے کہ ضروری نہیں کہ اس میں مبتلا دو بچے یکساں کیفیت ظاہر کریں بلکہ مرض کی شدت کی مختلف رینج ہوتی ہیں یا یہ کہ یہ مرض کسی ایک کیفیت کے بجائے مختلف کیفیات کا مجموعہ ہوتا ہے اور اس کی شدت ہر بچے میں مختلف رویے کی صورت ظاہر ہوسکتی ہے، لہٰذا آٹزم کی تشخیص والے دو بچے انتہائی مختلف کیفیات کا مظاہرہ کرسکتے ہیں، یہ چکن پاکس یا ملیریا جیسی مخصوص علامتوں کا مرض نہیں کہ جو ہر متاثر کنندہ میں مشترکہ علامات پیدا کرتے ہیں۔
آٹزم کی علامات:
آٹزم میں مبتلا افراد دوسرے افراد سے نظر ملا کر بات کرنے سے یا دوسرے افراد کی مسکراہٹ اور دوسرے جذبات پر توجہ دینے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ایسے افراد دوسرے لوگوں کی طرف کم دیکھتے ہیں اور اپنا نام لیے جانے پر کوئی اظہار نہیں کرتے۔ وہ دوسروں کے ساتھ بات چیت، یاشتراک میں پہل کرنا پسند نہیں کرتے۔
۱۔ ایک جیسے عمل پر اصرار اور کسی بھی تبدیلی سے مزاحمت ہے، مثال کے طور پر کسی بچے کاایک مخصوص پہیے کو گھماتے رہنا اور اس کی ساری خوشی اس کی حرکت تک محدود ہے۔ اگر آپ اس سے یہ لے لیں تو وہ چیخ چیخ کر روئے گا۔ اس کی توجہ کسی دوسرے کھلونے کو دے کر بٹائی نہیں جاسکتی۔
2۔ عام گفتگو کے بجائے کچھ خاص الفاظ یا کلمات کا دہرایا جانا۔
3۔ کسی بھی ایسی بات پر ہنسنا یا رونا کہ جس کو سمجھنے سے دوسرے افراد قاصر ہوں۔
4۔ لوگوں کے درمیان بیٹھنے کے بجائے تنہا رہنے پر ترجیح اور انداز بھی دوسروں سے خاصا مختلف، یا یوں بھی کہہ لیں کہ لوگوں کے درمیان بھی بیٹھنے کے باوجود ان کی اپنی دنیا ہوتی ہے جس میں کسی اور کا دخل بڑی مشکل سے ہوتا ہے۔ ان کے گرد گویا ایک دیوار سی کھنچی ہوئی ہوتی ہے کہ جس کے اندر کسی دوسرے کی موجودگی تو ایک طرف آوازیں بھی داخل نہیں ہوتیں یعنی قوتِ سماعت کے باوجود آواز پر توجہ دینے سے قاصر ہوتے ہیں۔
5۔ لوگوں سے گفتگو یا گھلنے ملنے سے گریز چاہے وہ بہن بھائی ہوں یا دوسرے ساتھی افراد۔
6۔ آنکھ ملا کر بات کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی یا بالکل ہی کم ہوتی ہے اور اگر کبھی آپ کی طرف دیکھیں بھی تو ان کے خالی پن سے آپ کو صاف اندازہ ہوجائے گا کہ وہ آپ کے سامنے ضرور ہے مگر آپ مرکزِ نگاہ ہرگز نہیں ہیں۔
7۔ گلے لگنے یا لپٹ کر پیار دینے سے انتہائی گریز، گو یہ قطعی حتمی نہیں، بعض بچے لپٹتے بھی ہیں اور پیار بھی کرتے ہیں۔
8۔ کسی خاص کھلونے یا کسی چیز کا گھمانا۔
9۔ کسی خاص کھلونے سے حد سے زیادہ لگاؤ، مثلاً پانی پینے کے نلکے سے عشق، پتیاں توڑنا، کسی کپڑے کو ہمیشہ ساتھ رکھنا وغیرہ وغیرہ۔
10۔ روایتی پڑھانے والے طریقوں کا ان کے لئے سودمند ثابت نہ ہونا۔
11۔ خطروں سے کسی قسم کا خوف کا نہ محسوس ہونا۔
12۔ کسی درد یا کسی آواز سے حد سے زیادہ یا حد سے کم حسیت ہونا، مثلاً کسی بچے کا ویکیوم کلینر کی آواز کو سن کر چیخ چیخ کر رونا یا سائرن کی آواز سن کر کوئی اثر نہ لینا۔
آٹزم کے اسباب:
آٹزم کی کوئی ایک واحد وجہ نہیں ہوتی، اس کا سبب دماغ کی ساخت یا اس کے کام میں بے قاعدگی ہوتی ہے اور اس کا اندازہ آٹزم میں مبتلا افراد کے دماغ کی اندرونی مشینی تصویر سے ہوا۔ گو ابھی تک کسی واحد جینیاتی مادے کی شناخت نہیں ہوئی ہے تاہم تحقیق دان ایسے جینیاتی مادوں کے مجموعہ کی تلاش میں ہیں کہ جو ان بچوں نے موروثی طور پر حاصل کیے ہوں۔ یہ بھی لگتا ہے کہ کچھ بچے غالباً کسی محرک کے اثر سے زود حس ہیں مگر ابھی تک سائنسدان کوئی ایسا اُکسانے والا سبب تلاش نہیں کرپائے ہیں۔
کچھ دوسرے تحقیق دانوں نے اس امکان پر بھی تحقیق کی ہے کہ کچھ حالات میں کچھ چیزوں کا مجموعہ دماغ کی نشوونما میں مداخلت کرکے آٹزم کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ریسرچ کے مطابق اس کی وجہ زمانہ حمل یا زچگی کے دوران مسائل کے علاوہ ماحولیاتی عوامل مثلاً وائرس انفیکشن یا ماحول میں موجود کیمیکل کی موجودگی بھی ہوسکتی ہے۔آٹزم سے مدافعتی ٹیکوں کا تعلق بھی زیربحث رہا ہے۔ گو 2001ء کی ریسرچ کے مطابق اس امکان کو مسترد کیا گیا ہے کہ MMR ویکسین اور آٹزم کا تعلق ہے تاہم اسے حتمی مسترد بھی نہیں کیا گیا ہے اور اس پر مزید کام کی ضرورت ہے۔
بہرحال وجہ جو بھی ہو، آٹزم بچوں کی غلط تربیت کا ہرگز نتیجہ نہیں، یہ کوئی خطرناک ذہنی بیماری نہیں، ایسے بچے اپنی بدتمیزی کا انتخاب خود نہیں کرتے ہیں اور یہ بھی ہے کہ ابھی تک کوئی نفسیاتی عوامل بھی ایسے نہیں ملے کہ جو بچوں میں آٹزم کا سبب بنیں۔
بچے کی تشخیص کو مثبت ثابت کرنے کے لئے آٹزم کی تقریباً 12 علامات میں سے 6 کا پایا جانا ضروری ہے اور ان علامات کا کم عمری سے ہونا ضروری ہے، ہوسکتا ہے کہ پیدائش کے وقت بچہ بالکل دوسرے بچوں کی طرح نظر آئے لیکن اس کی علامتوں کا ظہور بتدریج وقت کے ساتھ ساتھ ہوتا رہتا ہے۔ یہ علامتیں اگر بچہ پہلا ہو تو واضح طور پر نوٹ نہیں کی جاتیں لیکن جس وقت دوسرا بچہ ہوتا ہے تو دونوں کے رویوں میں فرق سے آٹزم واضح ہوتا ہے۔ آٹزم میں مبتلا کچھ لوگوں میں اوسط یا اوسط سے زیادہ ذہانت ہوتی ہے۔
اس وقت یہ بات توجہ طلب ہے کہ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں میں اس کے ہونے کے امکانات چار گنا زیادہ ہیں اور اس کے ہونے کا تناسب ہر سال 10.17 فیصد بڑھ رہا ہے۔
ذہنی عدم توازن کے لئے مروجہ آئی کیو ٹیسٹنگ اکثر ماں باپ کو پریشان کردیتی ہے۔ ان کے بچے میں اگر کسی صلاحیت کے اظہار میں دیر لگتی ہے تو وہ اس خوش خیالی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہوجائے گالیکن ایسا نہیں ہوتا ۔
آٹزم میں مبتلا ہونے کی وجہ سے آپ کو اچھی زندگی گزارنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی ہے۔ہر شخص کی طرح، آٹزم میں مبتلا لوگوں میں کچھ ایسی چیزیں ہوتی ہیں جن میں وہ اچھے ہوتے ہیں نیز ایسی چیزیں بھی ہوتی ہیں جن میں وہ جدوجہد کرتے ہیں۔
آٹزم میں مبتلا ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کبھی بھی دوست نہیں بنا سکتے، رشتے نہیں بنا سکتے، یا ملازمت حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔ لیکن اس میں ان کو معاونت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آٹزم کے بارے میں آگاہی حاصل کی جائے اور اس کی علامات کےبارے میں معلومات حاصل کی جائے تاکہ آغاز ہی سے اس کی تشخیص کی جاسکے اور اور اس میں مبتلا افراد کو صحیح طرح ہینڈل کیا جاسکے۔ اس کمی کو چھپانے کے بجائے اس پر بات کرنا بہت ضروری ہے تاکہ آپ کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگ بھی آٹزم میں مبتلا بچوں کو ساتھ اچھے طریقے سے پیش آسکیں اور سماجی دوری کو ختم کرنے میں اس بچے کی مدد کرسکیں تاکہ ان کہ ذہنی نشونما میں مثبت تبدیلی رونما ہوسکے۔
سندس رانا، کراچی