فیس بک کی اندرونی دستاویزات کے ہزاروں صفحات منظر عام پر آئے ہیں جن سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم میں تشدد بڑھانے کے حوالے سے ملازمین میں غصہ ثابت ہوتا ہے۔
میڈیارپورٹس کے مطابق یہ دستاویزات فیس بک میں کام کرنے والی سابق ملازمہ فرانسس ہیوگن کے پاس تھیں جو حالیہ ہفتوں میں فیس بک کے حوالے سے متعدد انکشافات کرچکی ہیں۔
انہوں نے امریکی سینیٹ کو اکتوبر 2021 کے شروع میں فیس بک سے لاحق خطرات کے مبینہ شواہد فراہم کیے تھے۔ان خطرات میں نوجوانوں کی شخصیت پر مضر اثرات سے لے کر سیاسی تشدد کو بڑھاوا دینا وغیرہ شامل تھا۔یہ دستاویزات اب میڈیا اداروں تک پہنچ گئی ہیں اور ان میں متعدد نئے انکشافات سامنے آئے ہیں۔
17 امریکی میڈیا اداروں کے کنسورشیم نے ان دستاویزات کو شائع کرنا شروع کیا جسے فیس بک پیپرز کا نام دیا گیا ہے۔ان رپورٹس میں فیس بک کے اندر موجود متعدد مسائل بشمول نوجوانوں میں سوشل نیٹ ورک کی مقبولیت کی کمی، نفرت انگیز مواد کی روک تھام کے لیے اس کی اہلیت اور سیاستدانوں سے سلوک وغیرہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
کچھ اندرونی دستاویزات کے بارے میں رپورٹس پہلے ہی میڈیا ادارے جیسے وال اسٹریٹ جرنل کی جانب سے شائع کیا جاچکا ہے۔اب نئی رپورٹس میں بلومبرگ اور دی ورج نے بتایا کہ دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ فیس بک نوجوان صارفین میں مقبولیت کھو رہی ہے اور بے تابی سے دوبارہ ان کی توجہ حاصل کرنے کی خواہشمند ہے۔
امریکی خبررساں ادارے نے بتایا کہ فیس بک ملازمین کی جانب سے انتظامیہ پر زور دیا گیا تھا کہ سیاستدانوں اور معروف شخصیات کے لیے موڈریشن استثنی نہیں دیا جانا چاہیے۔
امریکی اخبار کے مطابق اندرونی دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ کمپنی کے اندر لائیک اور شیئر بٹن کو برقرار رکھنے یا ہٹانے کے حوالے سے کھیچاتانی چل رہی ہے۔ذرائع نے بتاےاکہ مارک زکربرگ نے ذاتی طور پر ویت نامی حکومت کی جانب سے سنسر شپ مطالبات پر دستخط کیے۔